ترکی میں بغاوت کا مقدمہ
20 اکتوبر 2008اس مقدمےکوکئی اعتبار سے انتہائی غیر معمُولی تصور کیا جا رہا ہے۔ گرفتار افراد میں چند ایک ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل ہے۔ عدالتی کارروائی کے لئے نامزد افراد کے خلاف استغاثہ کی تفصیلات دو ہزار چار سر پچپن صفحات پر مشتمل ہیں۔ عدالت کے اندر جج کے سامنے مشتبہ افراد نے الزامات کی نفی کرتے ہوئے اِس کو سیاسی الزام تراشی قرار دیا۔ اِن افراد کے خلاف استغاثہ میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایسی افراتفری کے خواہشمند تھے جس کے نتیجے میں فوج اقتدار سنبھالنے کی پوزیشن میں ہوتی۔ افراتفری مچانے والے Ergenekon گینگ کہلاتے ہیں۔
سترہ ماہ قبل پولیس نے اِس گروپ کی گرفتاریاں کی تھیں جب استنبول شہر کے ایک مقام سے پولیس کو ہینڈ گرنیڈ دستیاب ہوئے تھے۔ یہ دستی بم اُسی ساخت کے تھے جو سن دو ہزار چھ میں اخبار جمہوریت کے دفتر پر استعمال کئے گئے تھے۔ اِس مقدمہ میں ملوث افراد میں ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل ہیں۔ عدالتی کارروائی کے شروع ہونے پر جج نے مبینہ طور پرملوث افراد کے علاوہ تمام دوسرے افراد کو کمرہٴ عدالت سے باہر نکال دیا کیونکہ اِن کے علاوہ ورکرز پارٹی کے لیڈر، صحافی اور استنبول یونی ورسٹی کے سابق ریکٹر بھی ہیں۔
مقدمے کی شروعات پر عدالت کے باہر لوگ صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے کہ مقدمے کے پسِ پردہ حکومتی منصوبہ بندی شامل ہے اور یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ احتجاجی نعرے لگا رہے تھے کہ غدار پارلیمنٹ میں اور محب وطن جیلوں میں۔ Ergenekon گینگ پر یہ بھی الزام ہے کہ اُس نے کئی نامی گرامی ترک شخصیات کے قتل کی پلاننگ کر رکھی تھی جس میں نوبل انعام یافتہ ادیب ارہان پامک بھی شامل تھے۔ حکومتی ناقدین کا خیال ہے کہErgenekon گینگ فرضی ہے اور بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسٹس پارٹی کو کالعدم قراردینے کے خلاف دستوری عدالت کی کارروائی کے بعد آج سے شروع ہونے والا مقدمہ اردوہان حکومت کے انتقامی جذبات کا آئینہ دار بھی ہے۔
کچھ دوسرے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ مقدمہ اردوہان حکومت اور سیکولر قوم پرست قوتوں کے درمیان جاری اقتدار کی کشمکش کی آخری منزل بھی ہو سکتی ہے اور انجام کار فوج کو معاملات میں مداخلت کرنا پڑ جائے۔ فوج ابھی تک Ergenekon گینگ سے رابطے کی انکاری ہے۔ آج سے چھیاسی افراد کے خلاف شروع ہونے والے مقدمے کے فیصلے میں کئی ماہ در کار ہو سکتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا تب تک کیا کچھ وقوع پذیر ہو جائے۔
اپنی نوعیت کا پہلا کیس سمجھے جانے والےاس کیس کو کئی ترکی اخباروں نے اس صدی کے سب سے بڑے مقدمے سے تعبیر کیا ہے کیونکہ جن چھیاسی افراد پر مقدمہ چل رہا ہے ان میں با اثر ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل ہیں۔ اس مقدمے میں لگائے جانے والے الزامات کی تفصیلات کے مطابق ان چھیاسی افراد پر تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے اور منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ جن میں سن دو ہزار چھ میں ایک اخبار کے دفتر پر حملے اور اسی برس عدالت پر حملہ، جس میں ایک جج ہلاک ہوا تھا شامل ہیں۔ الزامات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حملے سیکولر آرمی کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر اکسانے کے لیے کیے جا رہے تھے۔ ملزمان نے ان تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مقدمہ ایک سیاسی چال ہے۔
جیسے ہی مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہوا جج نے عدالت میں موجود تماشائیوں کو عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ وکیل دفاع کے احتجاج کے باوجود کارروائی کے دوران صرف ملزمان اور وکیل ہی عدالت میں موجود تھے۔
کمرہ عدالت کے باہر مظاہرین موجود تھے۔ انہوں نے ان دو مشہور جرنیلوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جن پر یہ الزام ہے کہ وہ الٹرہ نیشنلسٹ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔