ترکی میں افراط زر کی شرح گزشتہ پندرہ برسوں میں سب سے زیادہ
9 نومبر 2018ترکی میں غیر معمولی افراط زر کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ 1990ء کی دہائی میں تو یہ شرح 90 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تب اس صورت حال کو ’افراط زر کے عفریت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن 2001ء کے اقتصادی بحران کے بعد انقرہ حکومت کی طرف سے کیے گئے سخت بچتی اقدامات اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے امداد کے باعث ملکی معیشت میں جو استحکام آیا تھا، اس نے موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن کی مذہبی رجحانات رکھنے والی قدامت پسند حکمران جماعت اے کے پی کی وجہ سے آنے والے سیاسی استحکام کے ساتھ مل کر افراط زر کو بہت کم کر دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔
لیکن آج جب اے کے پی کو اقتدار میں آئے ہوئے 16 برس ہو گئے ہیں، ترکی کو ایک بار پھر اسی پرانے مسئلے کا سامنا ہے: ملکی معیشت کی حالت غیر مستحکم اور افراط زر کی شرح بہت زیادہ۔
ترک دفتر شماریات کے مطابق اس سال اکتوبر میں ملک میں افراط زر کی شرح 25.24 فیصد رہی، جو گزشتہ 15 برسوں کے دوران ترک معیشت میں سرمائے کی فراوانی کی سب سے اونچی شرح بنتی ہے۔ اس دوران ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں سب سے نمایاں اضافہ ملبوسات اور روزمرہ استعمال کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں دیکھا گیا، جو قریب 13 فیصد رہا۔
افراط زر کی اس بہت اونچی شرح نے گھروں کی قیمتوں اور مکانات کے کرایوں سے لے کر اشیائے خوراک کی قیمتوں تک ہر شے کو متاثر کیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے افراط زر سے متعلق دنیا کے 180 ممالک کی جو فہرست جاری کی، اس میں ترکی سب سے زیادہ افراط زر والے پہلے دس ممالک میں سے ایک تھا۔
افراط زر کی اس غیر معمولی حد تک زیادہ شرح کے بارے میں ترک وزیر خزانہ اور صدر ایردوآن کے داماد بیرات البیراک کا کہنا ہے کہ یہ شرح نومبر اور دسمبر میں دوبارہ کم ہو جائے گی۔ لیکن اقتصادی ماہرین کے مطابق اس شرح میں کمی کی توقعات غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور ایسی بہت اونچی شرح دراصل اگلے برس 2019ء میں بھی دیکھنے میں آئے گی۔
ماہرین کے مطابق اس کا سبب یہ بھی ہے کہ ترک حکومت کے بہت زیادہ افراط زر کے خلاف اب تک کے جملہ اقدامات زیادہ تر علامتی ہی ثابت ہوئے ہیں اور انقرہ حکومت تو اب تک ترک کرنسی لیرا کی قدر میں بے تحاشا کمی کے باعث پیدا ہونے والے بحران پر بھی قابو نہیں پا سکی۔
ارام ایکن دیوران / م م / ش ح