1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی عفرین میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے، ایمنسٹی

2 اگست 2018

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام عائد کیا ہے کہ ترک فورسز شامی علاقے عفرین میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں جبکہ انقرہ ان کارروائیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اس عالمی ادارے اس تناظر میں ترکی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/32UiG
Syrien Afrin Arabische Milizen Plünderungen
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام عائد کیا ہے کہ شامی علاقے عفرین پر قبضے کے بعد سے ترک فورسز وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

اس تنظیم نے کہا ہے کہ شمالی شام کے اس علاقے میں شامی ملیشیاؤں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ مقامی لوگوں کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ لوٹ مار کر رہی ہیں اور لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جا رہا ہے۔

ترک فورسز نے رواں برس مارچ میں ایک خونی کارروائی کے بعد اس شامی علاقے کو کرد جنگجوؤں کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔ انقرہ کے مطابق یہ ’دہشت گرد‘ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے حامی ہیں، جو ترکی میں سرحد پار پرتشدد کارروائیوں میں ملوث بھی ہیں۔

کرد ملیشیا وائی پی جی کو امریکا کی حمایت بھی حاصل تھی، جس کے جنگجو مقامی سطح پر جہادی گروہوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔

ایمنسٹی کے الزامات

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عفرین میں رواں برس مئی اور جولائی میں رہائش پذیر بتیس افراد کے انٹرویوز کے بعد کہا ہے کہ ترک فورسز کے قبضے کے بعد اس شامی علاقے میں انسانی حقوق کی پامالیاں لزرہ خیز ہیں۔ انسانی حقوق کے اس عالمی ادارے نے درج ذیل الزامات عائد کیے ہیں۔

  • عفرین کے لوگوں کو بغیر ثبوت کے گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے علاوہ لوٹ مار اور املاک کے ضبط کیے جانے کا سامنا رہا

  • ظلم کرنے والے زیادہ تر افراد کو ایسے شامی جنگجو گروہوں کا تعاون حاصل رہا، جنہیں ترکی نے مسلح کیا

  •  شامی جنگجو گروہوں اور ترک فورسز نے اسکولوں پر قبضہ کر لیا، جس کی وجہ سے ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہو گئے

  • عفرین کی یونیورسٹی کو لوٹ مار کے بعد اسے تباہ کرتے ہوئے مکمل طور پر بند کر دیا گیا

  • وائی پی جی کے ساتھ واسبتگی کے بے بنیاد الزامات کے تحت شہریوں کو سزا دی گئی یا ان کی املاک ضبط کر لی گئیں

ترکی کا مؤقف

ترک صدر رجب طیب ایردوآن ان تمام تر الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ ماضی میں وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ شام کے کسی علاقے پر قبضہ کی خواہش نہیں رکھتے اور شامی علاقوں کو وہاں کے حقیقی مالکان کو لوٹانا چاہتے ہیں۔

تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے حوالے سے جب انقرہ حکومت سے رابطہ کیا گیا اور ابتدائی رپورٹ فراہم کی گئی تو ترک حکومت کی طرف سے ان الزامات کے جواب میں کوئی ٹھوس ردعمل مہیا نہ کیا گیا۔

ایمنسٹی کے مشرق وسطیٰ کے لیے ریسرچ ڈائریکٹر لین مالوف نے کہا ہے کہ عفرین پر قبضے کے بعد اب ترک حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وہاں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائے اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرے۔

اس خاتون محقق نے مزید کہا، ’’بغیر کسی مزید تاخیر کے ترک حکومت کو چاہیے کہ وہ عفرین میں ترک نواز مسلح گروہوں کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ممکن بنائے، شرپسند عناصر کو گرفتار کر کے ان کا احتساب کرے اور عفرین کے شہریوں کی بحالی اور تعمیر نو میں ان کو مدد فراہم کرے۔

ع ب / ا ا/ خبر رساں ادارے