1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: صحافی کو 27 برس جیل کی سزا

24 دسمبر 2020

ترکی کی ایک عدالت نے ترک صحافی جان دندار کو دہشت گردی کی مبینہ حمایت کرنے اور ’فوجی یا سیاسی جاسوسی‘ کے الزام میں 27 برس سے زائد قید کی سزا سنائی ہے۔

https://p.dw.com/p/3nBCw
Can Dündar Deutsche Welle Global Media Forum SHIFTING POWERS
تصویر: Malte Ossowski/SvenSimon/picture alliance

حکومت مخالف ترک اخبار 'جمہوریت‘ کے سابق ایڈیٹر ان چیف جان دندار پر دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ وہ ایک ناکام بغاوت کے بعد صحافیوں کے خلاف انقرہ حکومت کی کارروائیوں کے دوران سن 2016 میں ترکی سے بھاگ کر جرمنی چلے آئے تھے۔

استنبول کی ایک عدالت نے بدھ کے روز دندار کو سرکاری رازوں کو سیاسی مقاصد کے لیے حاصل کرنے یا فوجی جاسوسی کرنے کے جرم میں 18 برس اور نو ماہ قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے ایک مسلح دہشت گرد تنظیم کی، جس کے وہ رکن نہیں تھے، حمایت کرنے کے جرم میں انہیں مزید آٹھ برس اور نو ماہ قید کی سزا بھی سنائی۔

حکومت مخالف اخبارجمہوریت کے سابق ایڈیٹر ان چیف جان دندار فی الوقت جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے خلاف یہ مقدمہ ان کی غیرموجودگی میں چلایا گیا۔

دندار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عدالت کے اس فیصلے سے کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے،”وہ مجھے اس لیے سزا دینا چاہتے ہیں کیوں کہ میں نے حقیقت پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تھی اور اسی کے ساتھ وہ ترکی میں ان دیگر صحافیوں کو بھی خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں جو اس طرح کے حساس موضوع پر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔"

Türkei Istanbul | Recep Tayyip Erdogan, Präsident
رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترکی کی انٹلی جنس ایجنسی کے راز افشا کرنے کے لیے'جمہوریت‘ کو 'بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘تصویر: Turkish Presidency/AP Photo/picture alliance

انہوں نے کہا،”ترکی کا عدالتی نظام تقریباً پوری طرح ایردوآن حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے وہاں کی عدالتوں میں اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن ہم انسانی حقوق سے متعلق یورپی عدالت میں جائیں گے اور مجھے امید ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ میں نے جو کچھ کیا وہ دہشت گردی نہیں بلکہ صحافتی ذمہ داری تھی۔"

استنبول کی عدالت نے دندار کے وکلاء دفاع کی غیر موجودگی کے باوجود اپنا فیصلہ سنا دیا۔ دندار کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ ان کے موکل پر عائد کیے گئے الزامات پوری طرح سیاسی ہیں اور وہ عدالت کے حتمی فیصلے میں حصہ نہیں لیں گے۔

ان وکلاء نے عدالتی فیصلے سے ایک دن قبل منگل کے روز ایک تحریری بیان جاری کر کے کہا تھا،”ہم اس مقدمے کا حصہ نہیں بننا چاہتے، جس کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا گیا ہے۔ عدالت کا فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔"

قبل ازیں دندار کے وکلاء نے منصفانہ فیصلے کو یقینی بنانے کے لیے ججوں کو تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی تھی۔

Plenary Session |  Media and politics: Where is this love-hate relationship going?
جان دندار ڈی ڈبلیو گلوبل میڈیا فورم 2019 کے دورانتصویر: DW/P. Böll

جان دندار کون ہیں؟

 سن 2015 میں ترکی کی جانب سے شام کے باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق ایک خبر شائع کرنے پر انقرہ حکومت نے دندار کے خلاف جاسوسی کے الزامات لگائے گئے تھے، جس کے بعد وہ 2016ء فرار ہو کرجرمنی آ گئے تھے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے دندار کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی کے راز کو افشا کرنے کے لیے'جمہوریت‘ کو 'بھاری قیمت اد کرنا پڑے گی۔‘

جرمنی میں جلاوطنی کے دوران دندار کو ترکی واپس لوٹ آنے کے لیے پندرہ دنوں کا وقت دیا گیا تھا لیکن انہوں نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔عدالت نے دندار کو مفرور قرار دیتے ہوئے ترکی میں ان کے اثاثوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا۔ ان میں انقرہ، استنبول اور مگلا میں مکانات سمیت چار جائیدادیں نیز ان کے نام پر بینک کھاتے شامل تھے۔

ترک حکام نے ستمبر 2016ء میں ان کی اہلیہ کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا تھا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد دندار نے ایک بیان میں ترکی حکومت کے فیصلے کو 'غیر قانونی اور بہیمانہ فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ان کی رپورٹ اب لوگوں کی زیادہ توجہ حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہا،”میں اپنی رپورٹ کو پوری دنیا میں شہرت دلانے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔"

فیصلے پر ردعمل

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس فیصلے کو 'ترکی میں آزاد صحافت کو لگنے والا ایک سخت دھچکا‘ قرار دیا۔ انہوں نے ٹویٹ پیغام میں تحریر کیا،''صحافت کوئی جرم نہیں ہے بلکہ یہ سماج کے لیے ایک ناگزیر خدمت ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب یہ اقتدار پر فائز لوگوں کو آئینہ دکھانے کا کام کرے۔‘

جرمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'بربریت‘ کے اقدام سے تعبیر کیا۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین فرینک اوبیرال نے کہا، ”جان دندار نے جو تفتیش، رپورٹ اور انکشاف کیا، وہ ایک اچھی صحافت ہے، کوئی جرم نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا،”آزاد ممالک میں ایسے کاموں کے لیے صحافیوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے لیکن ترکی میں ان کے لیے جیل خانے ہیں۔" انہوں نے جرمن حکام سے اپیل کی کہ وہ دندار کو 'اغوا‘ کر کے ترکی لے جانے کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرس ودآوٹ بارڈرز نے اپنی ٹوئٹ میں ترکی کی عدالت کے فیصلے کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔ تنظیم کے ڈائریکٹر کرسٹیان میہر نے کہا،''میڈیا کارکنوں کے خلاف دیگر مقدمات کی طرح یہ مقدمہ بھی دھوکہ تھا!“

 ج ا/    (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)

 

صحافت آسان نہیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں