’ترکی سے يوميہ ايک سو مہاجرين کی جبری ملک بدری‘
1 اپریل 2016خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی استنبول سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ايمنسٹی کی تحقيق ميں يہ سامنے آيا ہے کہ ترکی سے روزانہ ايک سو ايسے تارکين وطن کو واپس شام بھيجا جا رہا ہے، جنہوں نے ترکی ميں اندراج نہيں کرايا۔ تنظيم کے مطابق يہ صورتحال انقرہ حکومت اور برسلز کے مابين طے پانے والے معاہدے کی ’جان ليوا کمزوريوں‘ کی عکاسی کرتی ہے۔
انسانی حقوق سے منسلک گروپ يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کو روکنے کے ليے ترکی اور يورپی يونين کے درميان طے پانے والی ڈيل کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہيں۔ ان کا ماننا ہے کہ يہ ڈيل پناہ گزينوں کے حقوق کی خلاف ورزيوں کا سبب بن سکتی ہے اور يہ گروپ اس حوالے سے بھی سوالات اٹھاتے ہيں کہ آيا ترکی ان مہاجرين کے ليے ايک محفوظ ملک ہے۔ معاہدے پر عملدرآمد چار اپريل سے شروع ہو رہا ہے۔ اس کے تحت يونان کے جزائر پر پہنچنے والے ہر شامی مہاجر کو ترکی واپس بھيجا جائے گا اور اس کے بدلے ترکی ميں مہاجر کيمپوں ميں بسنے والے ايک شامی تارک وطن کو قانونی طور پر يورپ منتقل کيا جائے گا۔
اس بارے ميں بات کرتے ہوئے ايمنسٹی انٹرنيشنل کے ڈائريکٹر برائے يورپ اور وسطی ايشيا جان ڈيلہوئيزن نے کہا، ’’شامی پناہ گزينوں کے حالات بہتر بنانے کے ليے دباؤ ڈالنے کے بجائے يورپی يونين اس کی مخالف سمت ميں کام کر رہی ہے۔‘‘
شامی خانہ جنگی کے سبب ايک عرصے تک پاسپورٹ کے حامل تمام شامی شہريوں کو ترکی ميں داخلے کی اجازت تھی اور وہ سرحدی گزر گاہوں سے گزر سکتے تھے اور اندراج بھی کرا سکتے تھے۔ تاہم اب صرف ان شامی باشندوں کو ترکی ميں داخلے کی اجازت ہے، جنہيں فوری طبی امداد درکار ہو۔
يہ امر اہم ہے کہ سرحدی پابنديوں اور ويزے کی ضرورت کے سبب شامی پناہ گزين خطرناک راستے اختيار کرنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔ چند شامی اب سرحد پار کرنے کے ليے انسانی اسمگلروں کو ايک ہزار ڈالر تک ادا کر رہے ہيں۔ ايمنسٹی کے مطابق ترک حکام نے جنوبی صوبوں ميں شامی مہاجرين کے اندراج ميں بھی کمی متعارف کرائی ہے جس کے سبب ان تارکين وطن کے ليے بنيادی سہوليات کے حصول ميں دشوارياں پيدا ہو جاتی ہيں۔