1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

'ترک جنگی طیارے یونانی میزائل سسٹم کے ہدف پر' ترکی کا الزام

29 اگست 2022

ترکی کا الزام ہے کہ بحیرہ روم میں جب اس کے جنگی طیارے گشت کر رہے تھے، تو اسی دوران زمین سے فضا میں مار کرنے والے یونانی میزائلوں نے انہیں اپنے ہدف میں لے لیا تھا۔ تاہم یونان نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4GAKJ
Griechenland Recep Tayyip Erdogan, Staatspräsident der Türkei
تصویر: Turkish Presidency via AP/picture alliance

ترکی کے خبر رساں ادارے انادولو نے اتوار کے روز ملکی وزارت دفاع کے حوالے سے یہ اطلاع دی کہ گزشتہ منگل کے روز جب اس کے ایف 16 جنگی طیارے معمول کی فضائی گشت پر تھے، تو کریٹ جزیرے پر واقع یونانی میزائل سسٹم ایس-300 کے ریڈار نے انہیں اپنے ہدف میں لے کر لاک کر دیا۔  

اس حوالے سے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جب روسی ساختہ ایس-300 ریڈار سسٹم نے ترکی کے جنگی طیاروں کو اپنے نشانے پر لے کر لاک کیا، تو اس وقت ایف سولہ طیارے یونان کے جزیرہ روڈ کے مغرب میں تقریبا ًدس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے تھے۔ اس کے مطابق، ''مخالف ماحول کے باوجود'' ترک طیاروں نے اپنا مشن مکمل کیا اور پھر اپنے اڈوں پر واپس آگئے۔

 کسی ہدف کو راڈار سے لاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو مکمل طور پر ٹارگیٹ میں لیا جا چکا ہے، اور اسے تباہ کرنے کے لیے اب بس فائر کرنے کی ضرورت ہے۔ ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے رکن ہیں اور انقرہ کا کہنا ہے کہ نیٹو کے قوانین کے تحت اس طرح کے اقدام کو ایک معاندانہ عمل سمجھا جاتا ہے۔

ترکی اور یونان میں جزائر کے حوالے سے تنازعہ کیا ہے؟

یونان کا انکار

ادھر یونان کے سرکاری ٹیلی ویژن نے وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے ترکی کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ''یونان کے ایس-300 میزائل سسٹم نے ترکی کے ایف 16 طیاروں کو کبھی بھی لاک نہیں کیا۔''

گزشتہ ہفتے بھی اسی طرح کے ایک واقعے کے بعد ترکی نے انقرہ میں یونانی ملٹری اتاشی کو طلب کیا تھا، اور نیٹو سے شکایت درج کرائی تھی کہ یونانی طیاروں نے دوران پرواز ترک جنگی طیاروں کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔

ترکی کا کہنا تھا کہ جب مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں ترکی کے جنگی طیارے پرواز پر تھے تو اسی وقت یونان کے پائلٹوں نے ایف 16 جنگی طیاروں کی مدد سے ترک فضائیہ کے طیاروں کو ریڈار سے لاک کر دیا۔ اس پر ترکی کے پائلٹوں نے ضروری جواب دینے کی کوشش کی، جس کے سبب یونانی طیاروں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

یونان نے ترکی کے اس الزام کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا، کہ ترک طیارے بغیر اطلاع کے پرواز کر رہے تھے اسی لیے یونانی طیاروں کو بھیجا گیا تھا۔

Griechenland | Iranischer Tanker Lana wird entladen
ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے رکن ہیں، تاہم دونوں پڑوسیوں کے درمیان دیرینہ سمندری اور فضائی سرحدی تنازعات ہیںتصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images

بڑھتی کشیدگی

ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے رکن ہیں، تاہم دونوں پڑوسیوں کے درمیان دیرینہ سمندری اور فضائی سرحدی تنازعات ہیں۔ اسی وجہ سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر فضائی گشت اور مداخلتی مشن ہوتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر ایسے فضائی گشت ترکی کی ساحلی پٹی کے قریب یونانی جزیروں کے آس پاس ہوتے ہیں۔

ترک صدر کی جارحانہ سفارت کاری، نیٹو اتحادی مخمصے کا شکار

  ایتھنز انقرہ پر یونانی جزائر کے حوالے سے فضائی تجاوز کا الزام کرتا ہے، جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ یونان پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد طے پانے والے امن معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بحیرہ ایجیئن کے جزائر پر اپنی فوجیں تعینات کر رہا ہے۔

مشرقی بحیرہ روم کے جزائر کے حوالے سے ترکی اور یونان میں تنازعہ پرانا ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس حوالے سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سمندر میں سرحدوں پر اپنے دعووں کے بارے میں ہے، اور اس کا تعلق جزائر پر پائی جانے والی گیس جیسے قیمتی قدرتی وسائل سے بھی ہے۔

شمالی قبرص میں ’بھوتوں کا شہر‘ کھولنے پر تشویش

سن 1996 میں چھوٹے اور غیر آباد جزیرے ایمیا پر اختلافات اس قدر بڑھے تھے کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔ سن 2020 میں بھی قدرتی گیس کے تنازعے پر اتنی کشیدگی بڑھی کہ خطے میں ایک اور سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔

نیٹو کے رہنماؤں کو ان دونوں کے درمیان جھڑپوں کو روکنے کے لیے مجبوری میں بار بار قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ سن 2020 میں جرمنی کی سابق

 جرمن چانسلر انگیلا میرکل، جنہیں یورپ کے ساتھی رہنماؤں کی بھی حمایت حاصل تھی، دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے اس تنازعے میں ثالثی کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، اے پی)

ترک یونان سرحد پر نگرانی کا ہائی ٹیک نظام