1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی اور یونان باہمی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں

6 فروری 2019

یونان اور ترکی کے رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی بازگشت یونانی وزیراعظم کے دورہٴ ترکی کے دوران بڑی شدت سے سنی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3CnyN
Griechenland Jubel nach der Abstimmung im Parlament zur Namensänderung des Nachbarlandes
تصویر: Getty Images/A. Tzortzinis

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انقرہ میں یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس کے ساتھ جو ملاقات کی، اُس میں یہ اتفاق رائے ہوا کہ دونوں ممالک کو باہمی کشیدگی میں کمی لانا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے اس ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔

انقرہ میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں لیڈروں نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے علاوہ قبرص کے تنازعے کے موضوع پر بھی گفتگو کی۔ ایردوآن اور سپراس کی اس ملاقات میں تارکین وطن کی آمد اور بحیرہ ایجیئن میں دونوں ممالک کی سمندری حدود سے متعلق موضوعات پر بھی بات ہوئی۔

ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ترک صدر اور یونانی وزیراعظم نے رپورٹرز پر واضح کیا کہ پرانے حل طلب تنازعات کے باوجود انقرہ اور ایتھنز حکومتوں کے لیے باہمی تعلقات کو بہتر بنانا اہم ہے۔ یونانی وزیراعظم نے واضح کیا کہ اُن کا ملک کسی بھی صورت میں باغیوں کو قبول نہیں کرے گا لیکن ترکی کے آٹھ فوجیوں کا معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔

Türkei | Tsipras zu Besuch in Ankara
ترک صدر اور یونانی وزیراعظم ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Reuters/U. Bektas

سپراس نے یہ بھی واضح کیا کہ اُن کی ترک صدر کے ساتھ ملاقات میں اتفاق ہوا ہے کہ بحیرہ ایجیئن میں بڑھتے تناؤ اور کشیدگی میں کمی لانا بھی ضروری ہے۔ سپراس کے مطابق بعض معاملات میں اختلافات کے باوجود اعتماد سازی ضروری ہے اور مذاکرات میں تسلسل سے اختلافی معاملات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ 

ایردوآن اور سپراس کی اس ملاقات سے قبل ترکی نے اپنے ہاں سے فرار ہونے والے ملکی فوجیوں کی گرفتاری میں مدد دینے والوں کے لیے انعام کا اعلان کر کے اس مکالمت کو قدرے مشکل بنا دیا تھا۔ یہ فوجی ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد فرار ہو کر یونان چلے گئے تھے۔ اُن کی سیاسی پناہ کا معاملہ یونانی عدالت میں زیرغور ہے۔

یونانی وزیراعظم نے ترکی کے دورے کے دوران استنبول کے سابق کیتھڈرل حاجیہ صوفیہ کا بھی دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران ترک صدر کے خصوصی ترجمان ابراہیم کالن الیکسس سپراس کے ہمراہ تھے۔ ماضی میں نو سو برس تک مسیحیت کا اہم گرجا گھر اور پانچ صدیوں تک مسلمانوں کی مسجد رہنے والے مقام کو سن 1935 میں عجائب گھر قرار دے دیا گیا تھا۔