1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک وطن کا مجوزہ عالمی معاہدہ بیلجیم کی حکومت کو لے ڈوبا

9 دسمبر 2018

ترک وطن سے متعلق اقوام متحدہ کا مجوزہ لیکن متنازعہ عالمی معاہدہ اپنے منظور کیے جانے سے پہلے ہی یورپی ملک بیلجیم کی حکومت کو لے ڈوبا ہے۔ اس آئندہ معاہدے کے باعث برسلز میں مخلوط اکثریتی حکومت اقلیتی حکومت بن کر رہ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/39lj3
بحیرہ روم میں تارکین وطن سے بھری ایک کشتی جو الٹ گئی تھیتصویر: Reuters/Marina Militare

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز سے اتوار نو دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی وزیر اعظم چارلس مشیل اقوام متحدہ کے ترک وطن سے متعلق اپنی نوعیت کے اس پہلے عالمی معاہدے کے حامی ہیں، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر تارکین وطن اور مہاجرین کے حقوق کا تحفظ ہے۔

لیکن چارلس مشیل کی مخلوط حکومت میں شامل فلیمش قوم پسندوں کا ’نیا فلیمش اتحاد‘ یا این وی اے اس مجوزہ عالمی معاہدے کا مخالف ہے۔ اسی لیے اس پارٹی نے ملکی وزیر اعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مراکش نہ جائیں، جہاں آئندہ ہفتے کے اوائل میں عالمی ادارے کے اس نئے معاہدے کی منظوری دی جانا ہے۔

وزیر اعظم کی اصول پسندی

لیکن وزیر اعظم مشیل اپنے حکومتی اتحادیوں کا یہ مطالبہ ماننے پر تیار نہیں تھے، جس کے بعد اس پارٹی نے حکمران اتحاد کے لیے اپنی تائید واپس لینے اور حکومت سے اپنے اخراج کا اعلان کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج نو دسمبر کے روز چارلس مشیل کی اکثریتی حکومت یکدم ایک اقلیتی حکومت میں بدل گئی، جسے اب برسلز کی ملکی پارلیمان میں کوئی اکثریت حاصل نہیں رہی۔

Buchstaben formen das Wort Migrationspakt auf UN Fahne
ترک وطن کے عالمی معاہدے پر آئندہ ہفتے مراکش میں دستخط کیے جائیں گےتصویر: imago/C. Ohde

بیلجیم کی موجودہ حکومت چار جماعتی مخلوط حکومت ہے، جس میں فلیمش قوم پسندوں کی جماعت نیو فلیمش الائنس ہی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ اس پارٹی کی طرف سے چند روز قبل ہی یہ دھمکی دے دی گئی تھی کہ اگر چارلس مشیل مراکش میں بین الاقوامی مائیگریشن کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے، تو وہ حکومت سے نکل جائے گی۔ یوں اس پارٹی نے اب اپنی اس دھمکی کو سچ کر دکھایا ہے۔

مخالفت کرنے والے ممالک کے خدشات

اقوام متحدہ کے ترک وطن سے متعلق مجوزہ عالمی معاہدے کی امریکا، آسٹریلیا اور کئی یورپی ممالک کی طرف سے شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ یہ معاہدہ جس کی آئندہ ہفتے مراکش کے اسی نام کے شہر میں منظوری اب تقریباﹰ ایک یقینی بات ہے، ایک ایسا عالمی سمجھوتہ ہو گا، جس پر عمل درآمد اس عالمی ادارے کے رکن ممالک کے لیے لازمی نہیں ہو گا۔

لیکن اس سمجھوتے کی مخالفت کرنے والے ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ منظور ہو گیا تو مستقبل میں کسی نہ کسی وقت تمام ممالک قانونی طور پر اس پر عمل درآمد کے پابند ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ ریاستیں اس معاہدے کی مخالفت کر رہی ہیں کہ یہ طے ہی نہ پائے۔

Belgien Brüssel PK Premierminister Charles Michel
بیلجیم کے وزیر اعظم چارلس مشیل جو اب ایک اقلیتی حکومت کے سربراہ ہیںتصویر: Getty Images/AFP/N. Maeterlinck

برسلز میں ملکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق فلیمش قوم پسندوں کی جماعت نے چارلس مشیل کی حکومت کے لیے اپنی حمایت واپس لینے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کے بعد ملکی کابینہ میں اس پارٹی کے تمام وزیر بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان وزراء کے استعفے بیلجیم کے بادشاہ فیلیپ نے آج ہی منظور بھی کر لیے۔

نئے وزراء کی نامزدگی

وزیر اعظم چارلس مشیل نے کہا ہے کہ وہ مستعفی ہو جانے والے وزراء کی جگہ اب داخلہ، خزانہ، دفاع اور تارکین وطن سے متعلقہ امور کی وزارتوں کے ذمے دار نئے وزراء کو اپنی کابینہ میں شامل کریں گے۔ نئے وزیروں کے نام انہوں نے بادشاہ فیلیپ کے ساتھ شاہی محل میں ہونے والی ایک ملاقات میں منظوری کے لیے انہیں باقاعدہ طور پر پیش بھی کر دیے ہیں۔

این وی اے کی حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم چارلس مشیل نے کہا کہ وہ مراکش میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کے لیے ضرور جائیں گے اور وہاں بیلجیم کی ’ایک ذمے دار قوم‘ کے طور پر نمائندگی کریں گے۔

یورپ میں قوم پسندانہ سیاست کی لہر

بیلجیم کے فلیمش قوم پسندوں نے اس مجوزہ عالمی معاہدے کی مخالفت کی جو سوچ اپنا رکھی ہے، وہ کئی یورپی ممالک میں پائی جانے والی اسی سوچ کا حصہ ہے، جس میں قوم پسند سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کرتے ہوئے اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر امریکا اور آسٹریلیا جیسے اہم ممالک بھی اس معاہدے کے خلاف ہیں، جو اب اسی مخالفت کی وجہ سے کسی حد تک متنازعہ بھی ہو چکا ہے۔ یورپ میں جو ممالک اس معاہدے کے خلاف ہیں، ان میں سے کئی یورپی یونین کے رکن بھی ہیں۔

جن یورپی ملکوں میں اس مجوزہ معاہدے کی حکومتی یا داخلی سیاسی سطح پر بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے، ان میں بیلجیم، ہنگری، آسٹریا، اٹلی، بلغاریہ، کروشیا، چیک جمہوریہ، پولینڈ اور سوئٹزرلینڈ بھی شامل ہیں۔

م م / ع ت / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں