1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک وزیر اعظم کا سوشل میڈیا پر ’نیا حملہ‘

ندیم گِل24 مارچ 2014

ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے سوشل میڈیا کا دفاع کرنے والوں کے شعور پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کی جانب سے یہ ’نیا حملہ‘ صدر عبداللہ گُل کی اس اُمید کے باوجود سامنے آیا کہ ٹوئٹر پر عائد پابندی جلد اٹھا لی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1BUfI
تصویر: Reuters

رجب طیب ایردوآن نے اتوار کو ایک الیکشن ریلی سے خطاب میں کہا: ’’میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہوش مند لوگ فیس، یوٹیوب اور ٹوئٹر کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے جھوٹ کو پھیلا رہے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’’میری یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرے کے خلاف اقدامات کروں، ایسے کرتے ہوئے چاہے مجھے مخالفت کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔‘‘

قبل ازیں اتوار کو ہی ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے ٹوئٹر پر سے پابندی ہٹائے جانے کی امید ظاہر کی تھی۔ انہوں نے ہالینڈ کے دورے پر روانگی سے قبل صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’’ترکی جیسے ترقی یافتہ ملک کے لیے یہ بلاشبہ ایک ناگوار صورتِ حال ہے، جو ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں اہمیت رکھتا ہے اور جو رکنیت کے لیے یورپی یونین سے بات چیت کر رہا ہے۔‘‘

Der türkische Präsident Abdullah Gül
ترک صدر عبداللہ گُلتصویر: A.Kisbenede/AFP/GettyImages

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عبداللہ گُل اور رجب طیب کی جانب سے متضاد بیانات سے دونوں رہنماؤں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ترکی میں علاقائی سطح پر انتخابات ہونے والے ہیں اور ان حالات میں سوشل میڈیا کے خلاف اقدامات بالخصوص توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

ترکی میں ٹوئٹر پر پابندی گزشتہ جمعرات کو لگائی گئی۔ یہ حکومتی اقدام اس وقت سامنے آیا، جب رجب طیب ایردوآن کی حکومت بدعنوانی کے متعدد اسکینڈلز کی زد میں ہے اور حکومت مخالفین ٹوئٹر پر اس سلسلے میں حکومت پر شدید تنقید کرتے نظر آ رہے تھے۔ ترکی میں اس پابندی کے باوجود متعدد ٹوئٹر صارفین بدستور سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر پر پابندی کا مقصد حکومت کے خلاف بدعنوانی کے اسکینڈل کو دبانا ہے۔ انقرہ حکومت کے اس اقدام پر انسانی حقوق کے گروپوں اور ترکی کے مغربی اتحادیوں نے تنقید کی ہے۔

گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک حکومت کی جانب سے ٹوئٹر کی بندش کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس حوالے سے ان کے ترجمان نے ٹوئٹر ہی کے ذریعے پیغام جاری کیا تھا۔

میرکل کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ کا کہنا تھا کہ ایک آزاد معاشرے میں شہریوں کو اطلاعات تک رسائی کے لیے اپنا من پسند طریقہ اختیار کرنے کا حق ہوتا ہے اور یہ بات طے کرنا ریاست کا کام نہیں ہے۔