1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

ترک نژاد جرمن کرد گلوکارہ ہوزان کین کی جیل سے رہائی

1 اکتوبر 2020

معروف جرمن کرد گلوکارہ ہوزان کین کو دو برس کے بعد ترکی میں جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ وہ اور ان کی بیٹی پر ترکی میں دہشت گردی کا الزام ہے اور ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد ہے۔

https://p.dw.com/p/3jG0B
Hozan Cane
تصویر: Management/dpa/picture-alliance

معروف ترک نژاد جرمن کرد گلوکارہ ہوزان کین کو دو برس کے بعد ترکی میں جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ وہ اور ان کی بیٹی پر ترکی میں دہشت گردی کا الزام ہے اور ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد ہے۔ جرمن شہری ترک نژاد کرد گلوکارہ ہوزان کین کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں بدھ کی رات کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ وہ ترکی میں دہشتگردی کے الزام میں گزشتہ دو برسوں سے جیل میں تھیں۔

ہوزان کین ا سٹیج کے لیے اپنا نام سعیدی اناک استعمال کرتی ہیں۔ ان کے وکیل نوروز اخلان نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ استنبول کی ایک عدالت نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد وہ جیل سے باہر آگئی ہیں۔ عدالت نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کی قید کی سزا نا مناسب ہے۔ اخلان نے بتایا کہ ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد ہے جبکہ ان کے مقدے کی سماعت جاری رہے گی جس کی اگلی سماعت 20 اکتوبر کو ہے۔

ان کی بیٹی غنول عروس پر بھی دہشت گردی کا الزام ہے اور ان سے متعلق مقدے کی سماعت جمعرات یعنی یکم اکتوبر کو بھی جاری رہے گی۔ کین کو جون 2018 میں ادرین صوبے سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ عام انتخابات سے قبل کرد کاز کی حامی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔

ان پر کردش ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا رکن ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور گزشتہ برس نومبر میں ان کو اس کے لیے چھ برس اور تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ترکی، یورپی یونین اور امریکا سمیت کئی ممالک پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں۔ اگست میں ایک نچلی عدالت نے سماعت کے بعد کہا تھا کہ ان کے دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے سے متعلق واضح شواہد کی کمی ہے جس کے بعد اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔ 

Hozan Cane
تصویر: privat

آرٹ کوئی جرم نہیں ہے

جرمنی میں سیاست دانوں نے کین کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔ ترک نزاد جرمن شہری کی گرفتاری اور قید انقرہ اور برلن کے درمیان تعلقات پر بھی اثر انداز ہورہی تھی۔ نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں کین رہا کرتی تھیں اور وہاں سے تعلق رکھنے والے گرین پارٹی کے سیاست دان بیرران ایماز نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے۔''عالمی سطح پر ہونے والی کوششیں کام کر رہی ہیں، ہم اس وقت تک اپنی کوشش جاری رکھیں گے جب تک انہیں اور ان کی بیٹی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملتی اور کلون میں وہ پھر سے ہمارے درمیان نہیں پہنچ جاتیں۔''

سوشل ڈیموکریٹس کی جانب سے انسانی حقوق کے ترجمان فرانک شیوابے نے بھی ان کی جرمنی واپسی تک کوشش جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہوزان کین اب جیل میں تو نہیں ہیں تاہم انہیں ترکی سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہم کین اور ان کی بیٹی کی جرمنی کی دوبارہ واپسی تک اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوزان کو غلط طریقے سے جیل میں رکھا گیا۔ وہ ایک گلوکارہ ہیں جو اپنے فن کے سبب سیاسی طور پر متحرک ہیں۔''

  ہوزان کا جنم ترکی میں ہوا تھا تاہم نوے کے عشرے میں جب ترکی میں کرد آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری تھا تو وہ جرمنی چلی آئی تھیں۔ اپنی آپ بیتی میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں ہراساں اور ٹارچر کیا گیا جس کے بعد انہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی۔ اب وہ جرمن شہری ہیں اور ترکی میں گرفتاری سے قبل وہ جرمنی کے مغربی شہر کلون میں رہا کرتی تھیں۔

ص ز/ ج ا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں