1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر جرمنی کا سرکاری دورہ کریں گے، رپورٹ

28 جولائی 2018

ایسے بے شمار مسائل ہیں، جن کے حوالے سے جرمنی اور ترکی مذاکرات چاہتے ہیں۔ ترک صدر کو حالیہ کچھ عرصے سے جرمنی میں شدید تنقید کا سامنا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ان کے لیے ’ریڈ کارپٹ‘ بچھائے جانے پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/32EhK
Recep Tayyip Erdogan
تصویر: picture -alliance/AP Photo/B. Ozbilici

جرمنی کے مشہور اخبار بِلڈ کے مطابق رواں برس ستمبر میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن برلن کا دورہ کریں گے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران جرمنی کا یہ ان کا پہلا سرکاری دورہ ہوگا۔ سن دو ہزار چودہ میں صدر بننے اور گزشتہ برس کے متنازعہ ریفرنڈم کے بعد ان کی ترک اقتدار پر گرفت بہت مضبوط ہو چکی ہے۔

بِلڈ اخبار کے مطابق اس دورے کے دوران ترک صدر کا فوجی اعزاز کے ساتھ استقبال کیا جائے گا اور ان کے اعزاز میں ضیافت بھی ہوگی تاہم جرمن حکومت نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ترک صدر کے لیے ’سرخ قالین‘ ایک ایسے وقت میں بچھایا جائے گا، جب انقرہ اور برلن حکومت کے مابین تعلقات ماضی کی نسبت انتہائی کشیدہ ہیں۔ ان میں مزید کشیدگی کا آغاز سن دو ہزار سولہ کی فوجی بغاوت کے بعد ہوا تھا۔

Verhältnis Deutschland Türkei
تصویر: Imago/Depo Photos

اس فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے ’حقیقی اور تصوراتی دشمنوں‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جب کہ یورپ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر ترک صدر پر تنقید شروع کر دی تھی۔

ترک حکومت نے دو جرمن شہریوں کو بھی گرفتار کرتے ہوئے سزائیں سنائی تھیں، جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کے تبادلہ ہوا تھا۔ تاہم گزشتہ برس اکتوبر اور رواں برس فروری میں دونوں جرمن شہریوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔

ترکی جرمنی پر گولن تحریک کے کارکنوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کرتا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے پیچھے یہ تحریک کارفرما تھی۔ اس کے علاوہ انقرہ حکومت برلن پر یہ الزام بھی عائد کرتی ہے کہ اس نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوگی، جب شام میں ترکی کی فوجی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام حکومت زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول حاصل کر چکی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اب وہ اپنے ملک میں موجود ترک فوج کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کرے۔ جرمنی نہ صرف ترکی کی شام میں فوجی کارروائیوں پر بات چیت کرنا چاہتا ہے بلکہ شامی مہاجرین کا معاملہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔

ترک مبلغ گولن کی تحریک کا نیا مرکز ’جرمنی‘

یورپی یونین کی طرف سے غیرقانونی مہاجرت کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ترکی کا مرکزی کردار ہے۔

ان مسائل کے علاوہ ترکی کی معیشت کے حوالے سے بھی بات ہو گی۔ رواں برس کے آغاز سے ترکی میں افراط زر کے ساتھ ساتھ ترک لیرا کی قدر میں بیس فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ ترکی اور جرمنی دو اہم تجارتی ساتھی ہیں۔ ترک صدر جرمنی کے ساتھ تعلقات میں بہتری لاتے ہوئے اپنی بین الاقوامی ساکھ اور معیشت میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں۔

ا ا / ش ح