1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک اور روسی صدور کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟

6 اگست 2022

چار گھنٹے تک چلنے والی اس ملاقات میں صدر رجب طیب ایردوآن اور ولادیمیر پوٹن نے ٹرانسپورٹ، زراعت اور تعمیراتی صنعت میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں نے یوکرین اور شام پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

https://p.dw.com/p/4FCjx
Russland Erdogan bei Putin in Sotschi
تصویر: Vyacheslav Prokofyev//Sputnik/REUTERS

رجب طیب ایردوآن اور ولادیمیر پوٹن کے درمیان ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ دوسری ملاقات تھی۔ بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع روس کے سیاحتی شہر سوچی میں جمعے کے روز ہونے والی اس میٹنگ کے بعد کریملن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''موجودہ علاقائی اورعالمی چیلنجز کے باوجود دونوں رہنماؤں نے روس ترکی تعلقات کو مزید فروغ دینے کی اپنی مشترکہ خواہش کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنما تجارت میں اضافے اور اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی متفق ہو گئے۔‘‘

ترکی کی ثالثی میں گزشتہ ماہ استنبول میں ایک میٹنگ کے دوران یوکرین، روس اور اقوام متحدہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جس کے تحت بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے یوکرین سے اناج کی برآمدات بحال ہو گئی۔ فروری کے اواخر میں یوکرین پر روسی فوجی کارروائی کے بعد سے ہی اناج کی برآمدات رک گئی تھی جس کی وجہ سے عالمی غذائی بحران کا خدشہ لاحق ہو گیا تھا۔

دونوں رہنماوں کی ملاقات کے بعد جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پوٹن اور ایردوآن دونوں نے روسی اناج، کھاد اور دیگر خام اشیاء کی بلاروک ٹوک برآمد سمیت یوکرینی اناج کی برآمدات سے متعلق استنبول معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کرنے پر زور دیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے "علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے روس اور ترکی کے درمیان مخلصانہ، واضح اور بااعتماد تعلقات کی اہمیت" کا بھی ذکر کیا۔

Russland Moskau Sankt Petersburg Militärparade
تصویر: Dmitri Lovetsky/AP/dpa/picture alliance

دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کا عزم

پوٹن اور ایردوآن کی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان کے مطابق دونوں رہنماوں نے شام میں تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے اپنے عزم کا بھی اعادہ کیا۔

خیال رہے کہ انقرہ سن 2016 سے ہی شمالی شام میں متعدد فوجی کارروائیاں کر چکا ہے، جس میں اس نے کرد وائی پی جی ملیشیا کو نشانہ بنایا ہے اور ماسکو کی مخالفت کے باوجود شام کی سینکڑوں کلو میٹر زمین کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔

ایردوآن نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ ترکی شمالی شام میں داخل ہو کر کرد جنگجووں کو نشانہ بنائے گا۔ روس، ایران اور امریکہ نے اس اعلان کی نکتہ چینی کی تھی۔

روس اب بھی شام میں ایک غالب فوجی طاقت ہے۔ ایران بھی شام کی آمرانہ حکومت کی حمایت میں اپنا رول ادا کر رہا ہے۔

جمعے کے روز ایردوآن اور پوٹن کی ملاقات سے قبل کریملن نے ترکی سے شام کو "غیر مستحکم" نہ کرنے کی اپیل کی۔ کریملن کے ترجمان نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہم سکیورٹی اسباب کی بنا پر ترکی کی جائز تشویش کو سمجھتے ہیں اور بلاشبہ اس کو پیش نظر رکھیں گے۔"

جمعے کی میٹنگ کے بعد دونوں رہنما "تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ طور پر اور ایک دوسرے کے تعاون سے مل کر کام کرنے پر متفق ہو گئے۔"  بیان میں کہا گیا ہے کہ 'فریقین شام میں سیاسی عمل کو تیز کرنے کی انتہائی اہمیت دیتے ہیں‘۔

Russland Erdogan bei Putin in Sotschi
تصویر: MURAT KULA/TURKISH PRESIDENTIAL/AFP

اقتصادی تعاون پر زور

کریملن نے کہا کہ 'دونوں رہنما معیشت اور توانائی کے شعبوں میں ایک دوسرے کے توقعات کو پورا کرنے‘ پر متفق ہو گئے ہیں۔

ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اس نے یوکرین پر روسی حملے کی نکتہ چینی کی تھی اور یوکرین کو ہتھیار بھی فراہم کیے تاہم اس نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے میں مغربی اتحادیوں کا ساتھ نہیں دیا۔

تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں ترکی کا روس پر انحصار مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ اناج کے لیے بڑی حد تک روس اور یوکرین پر انحصار کرتا ہے۔

سن 2021 میں ترکی نے مجموعی طور پر 2.24 ارب ڈالر ک‍ اناج روس سے درآمد کیا تھا جبکہ یوکرین سے861 ملین ڈالر کا اناج درآمد کیا۔

ایردوآن اور پوٹن نے روس سے ترکی کے لیے قدرتی گیس کی درآمدات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنما روسی گیس کے لیے کچھ ادائیگیاں روبلز میں کرنے پر بھی متفق ہو گئے۔

ج ا/  ع ب  (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید