1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقیاتی پروجیکٹس میں کٹوتی کی خبریں:عوامی نمائندے پریشان

عبدالستار، اسلام آباد
26 ستمبر 2023

پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے ترقیاتی پروجیکٹس کو کم کرنے یا ختم کرنے کی خبروں پر سابق اراکین اسمبلی تشویش کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Wph0
Grenzregion Indien-Pakistan | Ravi River in Sheikhupura, Punjab
تصویر: Ali Abdullah Khan

کابینہ کی کمیٹی برائے معاشی بحالی نے وزیر منصوبہ بندی سے کہا ہے کہ وہ 200 سے لے کر 250 ارب روپے کے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے پروجیکٹس بند کریں تاہم سابق اراکین اسمبلی اس حکومتی ارادے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے عوام کے ساتھ نا انصافی قرار دے رہے ہیں۔

انگریزی روزنامہ دی نیوز کے مطابق کمیٹی کا اجلاس پیر کو ہوا۔ وزیر برائے منصوبہ بندی کو کہا ہے کہ وہ غیر ضروری پروجیکٹس کو بند کریں۔ ان کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ایسے پروجیکٹس کی نشاندہی کریں جس سے معاشی شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوتا یا ان کا کردار ایسی نمو میں زیادہ اہم نہیں ہے۔

اخبار کے مطابق ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مالی خسارے کو کم کیا جائے۔

 ڈی ڈبلیو نے اس خبر کی تصدیق کے لیے وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر، مشیر خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان اور دوسری وزارتوں کے ذمہ داران سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو پیغامات بھی بھیجے، تاہم انہوں نے ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔

کٹوتی کا پیمانہ

وفاقی حکومت کی ایک اہم وزارت کے ایک اعلٰی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ایسے پروجیکٹس کو ختم کیا جائے گا جو ابھی شروع نہیں کیے گئے ہیں۔ پروجیکٹس کو ختم کرتے وقت زمینی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے گا اور جن پروجیکٹس پر اچھا خاصا کام ہو گیا ہے ان کو ختم نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سے حکومت کو نقصان ہوگا۔‘‘

پشاور کا ایک مخدوش علاقہ
پاکستان کے زیادہ تر دیہی علاقے بنیادی ضروریات زندگی سے محرومتصویر: Saba Rahman/DW

اس عہدے دار کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کی طرف سے جو بجٹ بنایا گیا وہ معاشی اعتبار سے غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ ''یقینا سیاسی حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کی خدمت کرے اور اس کے لیے وہ ترقیاتی پروجیکٹس بھی لے کر آتی ہیں۔ تاہم یہ حکومت وقت کا حق ہوتا ہے کہ وہ زمینی حقائق دیکھے اور ملک کی معاشی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔‘‘

بلوچستان کو سی پیک میں بھی نظر انداز کیا گیا، ڈاکٹر مالک

اس عہدے دار نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ زیادہ ترقیاتی بجٹ بلوچستان، خیبر پختونخواہ، سندھ یا پنجاب کے سرائیکی علاقوں میں ختم کیے جائیں گے۔ ''ان پروجیکٹس کو ختم کرتے وقت صرف زمینی حقائق کا اصول کار فرما ہوگا۔‘‘ گلگت بلتستان سے اسلام آباد آئے ہوئے ایک سینیئر حکومتی عہدے دار نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے پروجیکٹس کم کرنا چاہتی ہے اور یہ کہ وہ اسی سلسلے میں اسلام آباد بات چیت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔

کٹوتی پر تشویش

ڈی ڈبلیو نے جب مختلف سابق اراکین اسمبلی سے اس حوالے سے دریافت کیا تو وہ اس حکومتی ارادے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے۔

 سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے 20 کروڑ کے کچھ پروجیکٹس منظور کروائے تھے، جس کے حوالے سے فنڈز ابھی تک جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی مخصوص نشستوں پہ منتخب ہونے والی خواتین ارکان اسمبلی کے لیے پانچ کروڑ روپے کے ترقیاتی پروجیکٹس کی منظوری دی تھی لیکن ابھی تک کوئی فنڈ جاری نہیں کیا گیا۔‘‘

کشور زہرہ کے مطابق وہ متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں لیکن پہلی مالی سہہ مائی گزرنے کے باوجود فنڈز کے دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔ ان کا کہنا تھا،''مجھے لگتا ہے کہ وزارت خزانہ کے کٹوتی کے پروگرام میں ہمارے پروجیکٹس بھی شامل ہو گئے ہیں۔‘‘

ان پروجیکٹس کی تفصیل بتاتے ہوئے کشور زہرہ نے کہا، ''میرا ایک پروجیکٹ پبلک پارکنگ کے لیے ہے جبکہ ایک معذور افراد کے لیے اسٹیڈیم کو توسیع کا ہے اور تیسرا غریب طالبات کے لیے فری تعلیمی سینٹر کو وسعت دینے کا ہے۔‘‘

Pakistan | viele Bildungseinrichtungen wurden in afghanischen Flüchtlingslagern aus Geldmangel geschlossen
ترقیاتی پروجیکٹس ختم ہونے کا براہ راست اثر عوام پرتصویر: Faridullah Khan/DW

عوام سے نہ انصافی ہے

چترال سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عبدل اکبر چترالی بھی اس حوالے سے موجودہ حکومت سے خفا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان پروجیکٹس میں کٹوتی کرتی ہے تو یہ عوام سے بہت بڑی نا انصافی ہوگی۔ عبدل اکبر چترالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے 25 کروڑ کے پروجیکٹس منظور کروائے تھے، جس میں چھ پروجیکٹس انرجی کے ہیں اور بقیہ پروجیکٹس پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں ان پروجیکٹس کی بہت شدید ضرورت ہے۔‘‘

ملازمتوں کی امید، پاکستانی چینی زبان سیکھنے لگے

کوئی اطلاع نہیں

چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ابھی تک ایسی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں ملی، جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اس طرح کے پروجیکٹس کو ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے مالی سال دوہزار بائیس اور تیئیس میں اپنے علاقے میں کئی ترقیاتی کام کرائے تھے اور مالی سال 2023 / 2024 میں بھی بہت سارے ترقیاتی کام کے لیے ترقیاتی پروجیکٹس منظور کرائے ہیں۔ تاہم حکومت نے ابھی تک ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ پروجیکٹس بند کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔‘‘

کٹوتی کے آثار

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال سے یہ لگ رہا ہے کہ حکومت واقعی ان کٹوتیوں کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ 950 ارب روپے کے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ بجٹ سے زیادہ سے زیادہ پیسہ بچایا جائے۔ حکومتی رویے کی وجہ سے مالی سال 2022 اور 2023 میں منظور ہونے والے ترقیاتی پروجیکٹس بھی سست روی کا شکار ہیں جبکہ مالی سال سال 2023 / 2024  کے ترقیاتی پروجیکٹس کے حوالے سے بھی پیسے  فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' 70 پروجیکٹس مالی سال دوہزار بائیس اور تیئیس یا اس سے پہلے کے ہیں جبکہ مالی سال دوہزار تیئیس اور چوبیس کے لیے 45 پروجیکٹس ہیں اور دونوں کے لیے ہی پیسے نہیں ملے۔‘‘

واضح رہے کہ مالی سال تیئیس چوبیس کے لیے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف وزارتوں کے لیے تقریبا 38 پروجیکٹ منظور ہوئے تھے اور اسی طرح وفاقی حکومت کی دوسری وزارتوں کے ترقیاتی پروجیکٹس کے لیے بھی خطیر رقم مختص کی گئی تھی۔