1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے جا خریداری کا سیلاب کیا کچھ بہا کر لے جائے گا؟

26 اپریل 2021

چند مہینے قبل گھر تبدیل کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ سامان شفٹ کرنے کے دوران احساس ہوا کہ اس میں سے کتنا سامان ایسا ہے، جو شاید ہی کبھی استعمال میں آیا ہو یا پھر بہت کم ہی کبھی ضرورت پڑی ہو۔

https://p.dw.com/p/3sZNx
Pakistan Rawalpindi Coronavirus
تصویر: picture-alliance/Zumapress

سب کچھ سمیٹنے کے دوران یہ سوچ ذہن کو بوجھل کرتی رہی کہ اتنی ناپائیدار زندگی جینے کے لیے اتنا کچھ جمع کر کے بیٹھے ہیں۔ صرف کھانا پکانے میں سہولت کے لیے دس طرح کے آلات، پھر اسی طرح برتنوں کی ورائٹی دیکھیں تو صرف چمچ ہی کئی اقسام میں درکار ہیں۔ پھر بات آجائے لباس کی تو اس میں بھی ہر موقع محل کے حساب سے ورائٹی ہونی ضروری خیال کی جاتی ہے۔

 بحیثیت عورت ایک اور دباؤ کہ کسی تقریب میں یا کسی رشتہ دار کے گھر جاتے ہوئے کوئی ڈریس دوبارہ نہ پہنا جائے ورنہ ناک کٹنے کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہم ضرورت اور خواہش میں فرق کرنا بھول چکے ہیں۔ ہم سے مراد ہماری مڈل کلاس ہے، جو کنزیومر ذومبی بن چکے ہیں اور خریدوفروخت کی ریس میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی دوڑ لگا رکھی ہے۔ غریب آدمی اس دوڑ میں شامل نہیں ہے۔ وہ تو اپنے روزمرہ کے معاملات پورا کرنے کے چکر سے ہی نہیں نکل پاتا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں مڈل کلاس  گھروں  میں بھی صرف اتنا ہی سامان ہوا کرتا تھا، جو انتہائی ضروری ہو، جیسا کہ حسب ضرورت اناج، جو فصل کی کٹائی کے وقت محفوظ کر لیا جاتا تھا، کپڑے جو موسم کے لحاظ سے سال میں ایک بار عید تہوار پر بنائے جاتے تھے، جس میں پورا سال تقریبات بھی نبٹ جاتی تھیں اور موت میت بھی۔

 تھوڑا بہت فرنیچر اور چند ضرورت کے برتن، اس محدود سے اسباب کے ساتھ زندگی بہت خوشگوار اور پرُسکون تھی کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ کسی ایک کے گھر میں فریج ہونا باقی سب محلے والوں کے لیے باعثِ نعمت ہوتا تھا۔ محلے کے کسی ایک گھر کا ٹی وی آس پاس کے باقی سب بچوں کو تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ کوئی احساسِ کمتری نہیں تھا۔ غم اور خوشیاں سانجھی تھیں۔ ہر چیز مل بانٹ کر استعمال کی جاتی، مل بانٹ کر کھانے کو باعثِ برکت سمجھا جاتا تھا۔

لیکن پھر شاید وقت بدل گیا اور ساتھ ہی انسان بھی۔ کنزیومرازم نے اس طرح ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ چیزوں کا حصول ہمارا مقصدِ حیات بن گیا۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہم ہر حد سے گزر گئے۔ معاشرے میں عزت کے معیار بدل گئے اور قدرومنزلت سازوسامان سے تولی جانے لگی۔

پرانے زمانے میں صرف شاہی خاندان اور چند امراء ہی اپنے پاس ضرورت سے زیادہ سامان رکھتے تھے اور اس بناء پر انہیں معاشرے میں ایک مخصوص مقام حاصل تھا۔ وقت گزرا تو بازار میں وہ اشیاء فروخت ہونے لگیں جو ضروریات زندگی میں شمار نہیں کی جاتی تھیں۔ صرف لوگ انہیں خریدنے کی خواہش رکھتے تھے۔ لہٰذا ان اشیاء کو بڑے پیمانے پر کارخانوں میں بنایا جانے لگا تو ان کی قیمتیں کم ہو گئیں اور ہر خاص وعام کی قوت خرید میں آنے لگیں۔

پھر یوں ہوا کہ لوگوں نے بلا ضرورت ان اشیاء کی خریداری کی، جو انہیں زندگی میں خوشی اور کامیابی کا احساس دلاتی تھیں۔ بلکہ انسان کی میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کی گئی، اسے یہ احساس دلایا گیا کہ بلاضرورت چیزیں خریدو کے تو کامیابی ملے گی۔ سرمایہ کار ایسا ہی چاہتے تھے اور ان چیزوں کے بکنے سے ان کے کاروبار کو خوب فائدہ پہنچا۔

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

 اس کے نتیجے میں تنخواہوں میں بھی کسی حد تک اضافہ کیا گیا۔ مزدوروں کی قوت خرید بہتر ہوئی تو انہوں نے بازار میں اس پیسے سے مزید اشیاء خریدیں۔ اس سلسلے میں کچھ ایسی اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز ہوا، جو جدید اکانومی کی بنیاد بنیں۔

دنیا کی تاریخ کے مشہور اکانومسٹ ایڈم اسمتھ اپنی کتاب ویلتھ آف نیشنز میں لکھتے ہیں کہ کھپت تمام پیداوار کا مقصد ہے، اسی لیے صارف کی دلچسپی کو فروغ دیتے رہنا چاہیے۔ کنزیومرازم کے اس دور میں امیر طبقے نے مزید سامان جمع کرنا شروع کر دیا، جسے conspicuous consumption کہا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ آپ کے پاس ایک Lexsus ہو یا Cadillac ہو گی تو یقینا ہر دیکھنے والا پہلی نظر میں سمجھ جائے گا کہ اس کا مالک کوئی انتہائی امیر انسان ہے۔ یعنی کچھ اشیاء لوگوں کی معاشرے میں حیثیت کی علامت بن گئیں۔

اقتصادیات میں کچھ ماہرین کھپت کے اس رجحان کو مثبت قرار دیتے ہیں تو کچھ منفی لیکن یہ بات اہم ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پیداوار زیادہ اور کھپت کم ہوتی ہے۔ اس لئے کہ وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی پہلے سے ہی بہتر ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں کھپت پیداوار سے زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ پہلے بات کی گئی کہ اس سے معاشی سرگرمیوں کو تو فروغ ملتا ہے لیکن اگر یہ کھپت کا رجحان پاگل پن میں تبدیل ہو جائے تو پھر اس پر قابو پانا ضروری ہے۔

دیکھا جائے تو اس صورتحال تک پہنچنے میں ہمارا اتنا قصور بھی نہیں ہے۔ اربوں روپے ایڈورٹائزنگ پر خرچ کر کے یہ کمپنیاں دن رات ہمیں اس بات پر رضامند کرتی ہیں کہ فلاں برانڈ کی فلاں چیز نہ خریدی تو ہم یوں ہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ کہیں ہمیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر آپ اپنے بچے کو یہ ڈائپر نہیں پہنائیں گے تو اس کو نشوونما اچھی نہیں ہو گی۔ وہ بیمار بھی پڑ سکتا ہے۔ تو دوسری طرف آپ کو یہ کہہ کر بہلایا جاتا ہے کہ اس واشنگ پاؤڈر سے آپ کی زندگی کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ آپ کو ایک سگھڑ بہو بھی مل جائے گی۔

 کسی شیمپو میں تو اتنی غذائیت پائی جاتی ہے جو ہماری غذا میں ہمیں میسر نہیں ہے۔ اگر آپ کسی ٹی وی ڈرامے سے محضوظ ہونا چاہیں تو ڈرامے کے درمیان 30 فیصد وقت آپ صرف اشتہارات ہی دیکھنے پر مجبور ہوں گے، جنہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شاید کھانے کے مصالحوں کے بناء زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اشتہارات میں سب سے اہم جزو اس اشتہار کو بار بار دکھانا ہے۔ ناظرین کے دماغ تک subliminal Message پہنچایا جاتا ہے، جس کے بعد غیر ارادی طور پر آپ کا دماغ ان چیزوں کو اپنے لیے ضروری سمجھنے لگتا ہے۔

کئی بار تو سیل فون آپ کسی اور کام سے اٹھاتے ہیں اور پیزا کی ڈیل کا میسج بھوک کا احساس جگا دیتا ہے۔ پاکستان میں موجود درمیانہ طبقہ پیسہ پھینک کر خود کو زندگی میں کامیاب خیال کرتا ہے یا ان چیزوں میں خوشیاں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے ان کمپنیوں کو معلوم ہے کہ وہ کس طرح زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔ ان کے معدے سے دل تک اور جیب تک رسائی حاصل کرنا وہ خوب جانتے ہیں۔

لیکن افسوس کہ ہمارے لوگوں کو اپنے پاس موجود پیسے کی اہمیت معلوم نہیں۔ لون کے کپڑوں کی سیل پر زیادہ سے زیادہ کپڑے خریدنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے بال کھینچتی اور الجھتی خواتین، فوڈ کورٹس کے باہر رش اور گھر بیٹھے موبائل ایپلیکیشن سے فضول اشیاء منگواتے لوگ آہستہ آہستہ کنزیومر ذومبی (consumer zombies) بنتے جا رہے ہیں۔ شاپنگ کر کے ملنے والی خوشی اس ڈوپامین نامی ہارمون کی بدولت ہے،جو ہمیں خوشی کا احساس دلاتا ہے۔ سائنٹفک ریسرچ کے مطابق چیزوں کی زیادہ خریداری کا مطلب زیادہ ڈوپامین کا اخراج ، جس کی زیادتی لت میں مبتلا کرتی ہے۔ آپ اس نہ ختم ہونے والی خواہشات کے سلسلے سے جڑ جاتے ہیں اور اپنے اردگرد اشیاء کا ڈھیر لگاتے جاتے ہیں۔

اپنی خوشی اور کامیابی کو اشیاء سے جوڑنا آپ کی ذات کی توہین ہے۔ مہنگے موبائل فون، مہنگی گاڑیاں اور برانڈڈ کپڑوں کی خریداری سے آپ کا سارا پیسہ اس ملک کے ایک فیصد آبادی کی جیب میں جاتا ہے، جو ٹیکس تک ادا نہیں کرتے۔ یہ پاکستان کا وہ امیر طبقہ ہے، جو اربوں روپے اس ملک سے مراعات کی صورت میں الگ سے بھی لیتے ہیں۔ اور اس ملک کے باقی لوگوں کی بڑی تعداد گندے پانی کے ایک گلاس پر اپنا دن گزارنے پر مجبور ہے۔ ہماری بے جا خریداری نہ صرف ہماری شخصیت، ہماری ذہنی صحت بلکہ ہمارا گھر ہماری زمین کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔