1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیروت بم دھماکہ: شدید قومی اور بین الاقوامی رد عمل

20 اکتوبر 2012

جمعہ 19 اکتوبر کی سہ پہر لبنانی دارالحکومت میں ایک کار بم حملے میں آٹھ افراد کی ہلاکت کے بعد آج بیروت میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جبکہ شہر کے اہم راستوں اور سرکاری عمارات پر فوجی نفری بڑھا دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/16ToA
تصویر: picture-alliance/dpa

اس حملے کا ہدف داخلی سکیورٹی فورس ISF کے انٹیلیجنس چیف 47 سالہ بریگیڈیئر وسام الحسن تھے، جو سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ تحقیقات اس رُخ پر جا رہی تھیں کہ 2005ء میں رفیق الحریری پر حملے کے پیچھے شام اور لبنان میں اُس کی حلیف تنظیم حزب اللہ کا ہاتھ تھا۔ جمعے کے کار بم دھماکے میں وسام الحسن کے علاوہ سات مزید افراد بھی ہلاک ہو گئے جبکہ تقریباً 80 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

لبنانی سیاستدانوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے صدر بشار الاسد کا ہاتھ ہے۔ اب یہ خدشات مزید تقویت پکڑ گئے ہیں کہ ہمسایہ ملک شام میں جاری خانہ جنگی لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

داخلی سکیورٹی فورس ISF کے انٹیلیجنس چیف بریگیڈیئر وسام الحسن
داخلی سکیورٹی فورس ISF کے انٹیلیجنس چیف بریگیڈیئر وسام الحسنتصویر: picture-alliance/dpa

آج لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی نے کہا ہے کہ اس بم حملے کا تعلق شام کی خانہ جنگی اور لبنان میں افراتفری پھیلانے کے اُس منصوبے سے ہے، جس کا حال ہی میں بر وقت پتہ چلا لیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا پتہ وسام الحسن نے چلایا تھا اور یوں اس سال اگست میں اسد کے ایک حامی سابق لبنانی وزیر کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، جسے لبنان میں شام کے اثر و رسوخ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا تھا۔

وسام الحسن ایک سنی مسلمان تھے، اس لیے سنی مسلمانوں نے گزشتہ رات اور آج ہفتے کو بھی بیروت کی سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور ٹائر جلا کر کل کے بم دھماکے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ اسی طرح کا احتجاج لبنان کے کچھ دیگر شہروں میں بھی کیا گیا۔

وسام الحسن کو اندازہ تھا کہ وہ اس طرح کے حملے کا نشانہ ہو سکتے ہیں، اس لیے اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کو پہلے ہی پیرس منتقل کر دیا تھا۔ وہ خود ابھی جمعرات کو جرمنی سے واپس لبنان پہنچے تھے۔ وسام الحسن کو کل اتوار کے روز رفیق الحریری مرحوم کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔

وہ جگہ، جہاں یہ دھماکہ ہوا
وہ جگہ، جہاں یہ دھماکہ ہواتصویر: AFP/Getty Images

رفیق الحریری مرحوم کے بیٹے سعد الحریری نے بھی اس کار بم دھماکے کا ذمہ دار شامی صدر اسد کو ٹھہرایا ہے۔ لبنانی اپوزیشن ’مارچ چودہ بلاک‘ نے وزیر اعظم نجیب میقاتی کی حکومت سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ میقاتی کی کابینہ میں حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے وزراء بھی شامل ہیں۔ میقیاتی نے آج کہا کہ انہوں نے تو مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے لیکن صدر مشیل سلیمان نے انہیں سردست اپنے عہدے پر کام کرتے رہنے کے لیے کہا ہے۔

اُدھر حزب اللہ اور اسد کے ایک بڑے حامی ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے کل کے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آج ہفتے کو بیروت پہنچ رہے ہیں۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کی وَیب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا گیا ہے جبکہ ایک سرکردہ اسرائیلی عہدیدار نے اس الزام کو لغو اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ دمشق حکومت نے بھی حملے کے فوراً بعد اسے ایک ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

بیروت کے اس بم دھماکے کے بعد مغربی طاقتوں میں بھی یہ خدشات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ شام میں جاری جنگ کا دائرہ پھیل کر دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے وسام الحسن کی ہلاکت کو اس امر کی ایک خطرناک علامت قرار دیا ہے کہ کچھ عناصر لبنان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے لبنانی سیاستدانوں پر زور دیا ہے کہ وہ متحد ہو کر ملک کو غیر مستحکم کرنے کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنا دیں۔ ویٹیکن اور یورپی یونین نے کل کے کار بم حملے کی مذمت بھی کی ہے۔

(aa/km(reuters