1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیروت بم حملہ، سابق وزیر محمد شطح ہلاک

امجد علی27 دسمبر 2013

لبنان کے ایک سابق وزیر محمد شطح، جو شامی صدر بشار الاسد کے مخالف تھے، آج چار دیگر افراد کے ہمراہ اُس وقت ہلاک ہو گئے، جب ایک بڑے بم دھماکے کے ذریعے اُن کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ 62 سالہ شطح ایک سنّی مسلمان تھے۔

https://p.dw.com/p/1AhQB
جمعہ، 27 دسمبر کو لبنان کے دارالحکومت کے وسطی علاقے میں ہونے والے کار بم دھماکے کا ایک منظر
جمعہ، 27 دسمبر کو لبنان کے دارالحکومت کے وسطی علاقے میں ہونے والے کار بم دھماکے کا ایک منظرتصویر: Reuters

محمد شطح سابق وزیر اعظم سعد الحریری کے مشیر ہوا کرتے تھے اور وہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو بھی تواتُر کے ساتھ ہدفِ تنقید بناتے رہتے تھے۔ اُن کی ہلاکت حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے اُن پانچ ملزمان کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہونے سے تین ہفتے قبل عمل میں آئی ہے، جن پر فروری 2005ء میں بیروت میں ہونے والے ہولناک کار بم حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں فردِ جرم عائد ہے۔ اس حملے میں سعد الحریری کے والد اور سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے ساتھ ساتھ 21 دیگر افراد بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

حزب اللہ کا اصرار ہے کہ اُس کا اس حملے میں کوئی کردار نہیں تھا جبکہ اقوام متحدہ کی ابتدائی تحقیقات میں اس حملے کے لیے شامی حکام کو قصور وار قرار دیا گیا تھا۔

اس دھماکے کے نتیجے میں محمد شطح کی کار مکمل طور پر تباہ ہو گئی
اس دھماکے کے نتیجے میں محمد شطح کی کار مکمل طور پر تباہ ہو گئیتصویر: Reuters

شطح نے اپنی ہلاکت سے کچھ ہی منٹ پہلے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھیجے گئے ایک پیغام میں یہ لکھا کہ یہ شیعہ ملیشیا پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی ہے۔ ٹویٹ میں لکھا گیا:’’حزب اللہ کی بھرپور کوشش ہے کہ سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلقہ امور میں اُسے بھی اُسی طرح کے اختیارات حاصل ہو جائیں، جیسے کہ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران شام کو لبنان میں حاصل رہے ہیں۔‘‘

جمعہ 27 دسمبر کو ہونے والے اس دھماکے کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور شہر کے مرکزی علاقے کی سڑکیں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں سے خالی ہو گئیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ہمسایہ ملک شام میں جاری تنازعے نے لبنان کی آبادی کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے اور وہاں فرقہ ورانہ کشیدگی میں شدت پیدا کر دی ہے۔ حزب اللہ نے اپنے جنگجو شام روانہ کیے ہیں تاکہ وہ شیعہ اسلام کی ایک شاخ علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے شامی صدر بشار الاسد کی افواج کے شانہ بشانہ لڑ سکیں۔ دوسری طرف شام کے کچھ سنّی باغی گروپوں کی وابستگی القاعدہ کے ساتھ ہے اور وہ اسد کا تختہ الٹنے کی کوشش میں ہیں۔

دھماکے کے باعث مرکزی علاقے میں واقع رہائشی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ متعدد ریستورانوں، کافی ہاؤسز اور دفاتر کو نقصان پہنچا
دھماکے کے باعث مرکزی علاقے میں واقع رہائشی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ متعدد ریستورانوں، کافی ہاؤسز اور دفاتر کو نقصان پہنچاتصویر: Reuters

2004ء کے ایک کار بم حملے میں بچ جانے والے ایک سابق وزیر مروان حمادہ نے العربیہ ٹیلی وژن سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’حزب اللہ لبنان پر کبھی بھی حکومت نہیں کر سکے گی، خواہ وہ کتنی بھی تباہی لے آئے اور کتنا بھی خون کیوں نہ بہا لے۔‘‘

جمعے کے کار بم حملے کی جگہ پر موجود ذرائع کے مطابق شطح اُس وقت حریری کے ہیڈ کوارٹرز میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے، جب ایک زور دار دھماکے نے اُن کی کار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خود سعد حریری اپنی جان کو لاحق خطرات ہی کی وجہ سے گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے لبنان سے باہر ہیں۔

ایک عینی شاہد نے روئٹرز کو بتایا کہ شطح کی کار اس دھماکے کے باعث مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ کار کے اندر سے شطح کا جلا اور پھٹا ہوا شناختی کارڈ بھی ملا۔ اس دھماکے کی گونج پورے شہر میں سنائی دی اور اس کے نتیجے میں فضا میں بلند ہونے والا دھواں دور دور سے دکھائی دے رہا تھا۔ اس دھماکے کے باعث مرکزی علاقے میں واقع رہائشی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ متعدد ریستورانوں، کافی ہاؤسز اور دفاتر کو نقصان پہنچا۔