1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیجنگ کا تیانانمن اسکوائر: فوجی کریک ڈاؤن کی چھبیسویں برسی

مقبول ملک4 جون 2015

چین میں آج جمعرات چار جون کے روز ملکی دارالحکومت بیجنگ کے تیانانمن اسکوائر میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والے ہزارہا افراد کے خلاف خونریز فوجی کریک ڈاؤن اور سینکڑوں افراد کی ہلاکت کی چھبیسویں برسی منائی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fbk2
ہانگ کانگ میں احتجاج کے شرکاء، فائل فوٹوتصویر: Reuters

ہانگ کانگ سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بیجنگ میں آج اس برسی کے موقع پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور ہانگ کانگ ملک کا وہ واحد حصہ ہے جہاں 1989ء کی اس فوجی کارروائی میں مارے جانے والے مظاہرین کو آج اپنے ہاتھوں میں شمعیں لیے ہزارہا شہری یاد کر رہے ہیں۔

ہانگ کانگ میں یہ عوامی مظاہرے زیادہ تر شہر کے وکٹوریہ پارک اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کیے جا رہے ہیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ احتجاج ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے جب ہانگ کانگ میں آئندہ رائے دہی سے پہلے عوام انتہائی حد تک تقسیم کا شکار ہیں۔ اس تقسیم رائے کی وجہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ہانگ کانگ کے اس علاقے کے اگلے رہنما کا انتخاب کس طرح کیا جانا چاہیے۔

1989ء میں بیجنگ میں تیانانمن اسکوائر یا ابدی امن کے چوک میں ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے ہزارہا مظاہرین کی طرف سے پرامن احتجاج سات ہفتوں تک جاری رہا تھا۔ پھر چار جون کے روز چینی حکومت نے مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا اور ’ابدی امن کے چوک‘ میں جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیے گئے تھے۔

یہ مظاہرے زیادہ تر نوجوان چینی طلبہ کی طرف سے کیے جا رہے تھے، جن کے خاتمے کے لیے حکمران کمیونسٹ پارٹی کے حکم پر کی گئی فوجی کارروائی میں سینکڑوں اور چند اندازوں کے مطابق ایک ہزار سے زائد مظاہرین مارے گئے تھے۔

Bildergalerie Ich gegen die Welt
تیانانمن اسکوائر میں فوجی کارروائی کے آغاز سے قبل لی گئی یہ تصویر دنیا بھر مشہور ہو گئی تھیتصویر: Reuters/A. Tsang

ہانگ کانگ میں آج کے مشعل بردار احتجاجی مظاہروں کے منتظمین میں سے ایک اور چین کی محب وطن جمہوری تحریکوں کی حمایت میں قائم کردہ اتحاد سے تعلق رکھنے والے رچرڈ سوئی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ مظاہرے انصاف کے لیے کی جانے والی وہ جدوجہد ہے جو آج تک جاری ہے۔‘‘

بیجنگ میں جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کی 26 ویں برسی کے موقع پر امریکا نے بیجنگ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کریک ڈاؤن میں مارے جانے والے مظاہرین کے بارے میں ’سرکاری اعداد و شمار جاری‘ کرے اور ساتھ ہی ان تمام قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے جو ابدی امن کے چوک میں ہونے والے انہی مظاہروں کے سلسلے میں ابھی تک جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ نے بیجنگ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ ان تمام افراد کے ہراساں اور گرفتار کیے جانے کا سلسلہ بھی بند کرے جو اس فوجی کارروائی کی برسی کے موقع پر یادگاری تقریبات یا مظاہرے منعقد کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی دفتر خارجہ نے آج جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’امریکا چینی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عام چینی شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ اور بنیادی آزادیوں کے حوالے سے وہ تمام بین الاقوامی وعدے پورے کرے جو اس نے کر رکھے ہیں۔‘‘

اسی دوران آج اس برسی کے موقع پر تائیوان سے بھی بیجنگ کے بارے میں تنقیدی آوازیں سنی گئیں۔ چین اور تائیوان کے درمیان تنازعہ اس وقت سے پایا جاتا ہے، جب عشروں قبل آج کے عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان کوئی علیحدہ خود مختار ملک نہیں بلکہ اس کا ایک باغی صوبہ ہے۔

China Peking Studenten Demonstration Tiananmen
مئی 1989ء کے آخری دنوں میں لی گئی ابدی امن کے چوک میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کی ایک تصویرتصویر: AP

اس پس منظر میں تیانانمن اسکوائر میں خونریزی کی برسی کے موقع پر تائیوان میں ملکی صدر ما ژِنگ ژِیُو نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ چین ان ’غلطیوں کا ازالہ‘ کرے جو اس نے چار جون 1989ء کے روز کی تھیں۔

امریکا میں قائم چین میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’چائنیز ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز‘ کے مطابق چین میں سلامتی کے ذمے دار اداروں کے اہلکاروں نے آج اس کریک ڈاؤن کی برسی سے قبل شانکسی اور ہُونان کے صوبوں میں درجنوں سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔

اے ایف پی کے مطابق بیجنگ میں اس فوجی کارروائی کے دوران مارے جانے والوں میں شامل ایک 19 سالہ طالب علم کی اس وقت 77 سالہ والدہ ژانگ شیان لِنگ نے بتایا کہ وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر گئیں تو وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس درجنوں سکیورٹی اہلکار پہلے ہی سے موجود تھے۔ اس چینی خاتون کے مطابق ان کے فلیٹ کے باہر بھی اکثر چھ سات سکیورٹی اہلکار موجود رہتے ہیں کیونکہ حکومت نہیں چاہتی کہ وہ میڈیا کو کوئی انٹرویو دیں یا تیانانمن اسکوائر سمیت کسی بھی ’حساس علاقے‘ کا رخ کریں۔