1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیجنگ اسلام کی 'چائنائزیشن' کیسے کر رہا ہے؟

8 جولائی 2024

چین کے حکمرانوں نے عقیدے کے معاملات کو ہمیشہ سختی سے کنٹرول کیا ہے اور یہ ملک اسلام پر عمل پیرا لوگوں کو بھی آج سختی سے کنٹرول کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4hj0v
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے مطابق چین میں اس وقت تقریباً سترہ ملین مسلمان ہیں
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے مطابق چین میں اس وقت تقریباً سترہ ملین مسلمان ہیںتصویر: DW

میں نے مرکزی چینی شہر شیان کی جامع مسجد کے کیش ڈسک پر موجود ایک مہذبی شخص کو جب "السلام علیکم" کہا تو اس نے جواباً "وعلیکم اسلام" کہا اور مجھے مسجد کے اندر آنے کی دعوت دیتے ہوئے پوچھا "کیا آپ مسلمان ہیں، آپ کے لیے داخلہ مفت ہے۔"

میں نے نفی میں جواب دیا، "میں مسلمان نہیں ہوں اور صرف اس مسجد کو دیکھنا چاہتا ہوں۔" چین کے سابق دارالحکومت چانگ آن کی یہ مسجد سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

چین میں دس لاکھ مسلمانوں کے حراستی کیمپوں کی حیثیت اب قانونی

چین میں ایغور نسل کے سابق مسلم حکومتی اہلکاروں کو سزائے موت

 غیر مسلموں کو مسجد میں داخل ہونے کے لیے پانچ یورو کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، جو شیان میں داخلہ فیس کے لحاظ سے ایک بھاری رقم ہے۔

بہر حال کیش کاونٹر پر موجود شخص عربی میں میرے سلام کرنے کی وجہ سے خوش تھا کیونکہ دیگر گھریلو سیاح بظاہر اسے صر ف چینی زبان میں ہی سلام کرتے ہیں۔

مساجد کی تزئین و آرائش اور اسے نیا ڈیزائن دینے کی مجبوری یہ واضح کرتی ہے چین میں مذاہب کی آزادی پر کس حد تک پابندی ہے
مساجد کی تزئین و آرائش اور اسے نیا ڈیزائن دینے کی مجبوری یہ واضح کرتی ہے چین میں مذاہب کی آزادی پر کس حد تک پابندی ہےتصویر: DW

ساتویں صدی میں پہلی مسجد

شیان قدیم شاہراہ ریشم کے آخری کنارے پر ہے۔ ساتویں صدی کے بعد، تانگ حکمرانوں کے دور میں یہ شہر بین الاقوامی میل جول کا گواہ رہا ہے۔ تانگ حکمران نے بودھ راہب ژوان زانگ کو بدھ مت کی قدیم ترین کتاب مہایان بھارت سے چین لانے اور اسے سنسکرت سے چینی زبان میں ترجمہ کرنے پر مامور کیا تھا۔ اسلام کی طرح بدھ مت بھی چین میں درآمد شدہ مذہب ہے۔

چین اسلامی اقدار میں ’ترامیم‘ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

پاکستانی مردوں کی چینی بیویاں حراست میں: حکومت کی خاموشی

اسلامی عقیدے کے پیرو پہلی مرتبہ سمندر کے راسے چین پہنچے تھے۔ پیغمبر اسلام کے ایک صحافی سعد بن وقاص نے سن 651 میں تانگ بادشاہ سے ملاقات کی اور ملک میں پہلی مسجد کی تعمیر کے لیے شاہی اجازت حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ شیان کی جامع مسجد، جو شاہی محل سے زیادہ دور نہیں ہے، اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔

عرب تاجر بھی مغرب سے وسطی ایشیا کے راستے اس شہر میں آتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ پرتعیش ساز وسامان اور غیر ملکی نظریات بھی لاتے تھے۔ آج یہ مسجد مسلمانوں کی آبادی کے وسط میں ایک بازار کے قریب ہے۔

ایک ہوئی مسلمان مسجد کےباہر
ایک ہوئی مسلمان مسجد کےباہرتصویر: DW

حکمرانوں نے مذہب کو کنٹرول میں رکھا

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے مطابق چین میں اس وقت تقریباً سترہ ملین مسلمان ہیں۔ ان میں بیشتر شیعہ مسلک کے ماننے والے ہیں۔ سب سے بڑی مسلم کمیونٹی ہوئی اور ایغور ہے، جن میں سے ہر ایک کی آبادی 80 لاکھ کے آس پاس ہے۔

چین کے ایغور مسلمانوں کے لیے سنکیانگ اب ایک ’اوپن ایئر جیل‘

چین ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے پریشان کیوں ہے؟

مسیحیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی چین میں بیرونی ممالک سے براہ راست رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وفاقی جرمنی کی ایجنسی برائے شہری تعلیم کا کہنا ہے،" صرف محب الوطن مذہبی انجمنوں کو تفصیلی انتظامی ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اپنے مندروں، گرجا گھروں، مسجدوں اور رجسٹرڈ جلسہ گاہوں میں قانونی طورپر سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے۔"

برطانوی روزنامہ 'دی گارڈین' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کی آخری بڑی مسجد، جس میں اب بھی عربی طرز کی خصوصیات برقرار ہیں، فروری میں اپنے گنبدوں سے محروم ہوگئی۔ جنوب مغربی صوبے یونان کے شہر شادیان میں واقع اس مسجد کے میناروں کو بھی چینی طرز تعمیر سے یکسر تبدیل کردیا گیا۔

تاریخ داں اور فلسفی کن گوشانگ کا کہنا ہے،"چینی تاریخ میں بہت سے شہنشاہ اور سیاست داں گزرے ہیں، جنہوں نے عوام کو کنٹرو ل کرنے اور ان پر حکومت کرنے پر توجہ مرکوز کی۔اور اسی لیے انہوں نے تمام مذاہب کو ریاستی نگرانی میں رکھا۔"

"انہوں نے مذاہب کے آفاقی عقائد کو دباکر، ریاست کے زیر کنٹرول مذاہب متعارف کرائے اور مذہبی سرگرمیوں کو محدود کرکے خدائی طاقت کے اثرات کو کمزور کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔" کن گوشانگ کے مطابق آج کا چین بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔

شیان کی مسجد کے میناروں کو پگوڈا کی شکل دے دی گئی ہے
شیان کی مسجد کے میناروں کو پگوڈا کی شکل دے دی گئی ہےتصویر: DW

اسلام موجود لیکن کنٹرول میں

شیان کی مسجد اپنے آپ میں ایک نمایاں خصوصیت کی حامل ہے، جو اسے روایتی اسلامی فن تعمیر سے ممیز کرتی ہے۔اس کا نمایاں عنصر، وہ مینار ہے، جو ایک پگوڈا کی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے۔ عبادت گاہ بھی روایتی چینی طرزتعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔

مساجد کی تزئین و آرائش اور اسے نیا ڈیزائن دینے کی مجبوری یہ واضح کرتی ہے چین میں مذاہب کی آزادی پر کس حد تک پابندی ہے۔

چینی تاریخ میں موافقت کا مطالبہ ہمیشہ ایک سیاسی ضرورت رہا ہے۔ ایک عوامی کہاوت ہے کہ چین میں دس ہوئی میں سے نو کی کنیت یا سرنیم 'ما' ہے۔

یہ کنّیت چین میں عام ہے اور اس کا سلسلہ پیغمبر اسلام کے دور سے ملتا ہے۔ اس وقت یہ کنّیت مو ہان  مو دے (محمد) تھی۔ لیکن منگ خاندان کے پہلے شہنشاہ ژو یوان ژانگ کا کہنا تھا کہ یہ چینی نہیں ہے۔ ژانگ نے حکم دیا کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو چینی کنّیت اختیار کرنی ہوگی، مقامی لوگوں سے شادی کرنی ہوگی اور اپنے روایتی رسوم و رواج اور ملبوسات ترک کرنے ہوں گے۔ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ ہوئیوں کو اپنی کنیت چھوٹی کرنی پڑی اور سامراجی طاقت کے سامنے جھکنا پڑا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ چین میں ایغور مسلمانوں کو منظم ذلّت، سزا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ چین میں ایغور مسلمانوں کو منظم ذلّت، سزا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہےتصویر: Kevin Frayer/Getty Images

ایغوروں کی تذلیل

لوگوں کو اپنے عقائد کو اس نظام کے تحت محدود اور اس کے مطابق بنانا پڑا جس کی ریاست اجازت دیتی ہے۔ جیسا کہ ہوئیوں کو کرنا پڑر ہا ہے، جن سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ ہوئی اس وقت چین میں سرکاری طورپر تسلیم شدہ 56 نسلی قومیتوں یا گروہوں میں سے ایک ہیں لیکن وہ اکثریتی ہان چینیوں سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

جرمنی کی منسٹر یونیورسٹی میں چین میں اسلام کے موضوع پر تحقیقات کرنے والے فروک ڈریوز کا کہنا ہے کہ ان کی شناخت کاعنصر، ان کا عقیدہ انہیں ممتاز نہیں کرتا۔ ہوئی کے ہان چینیوں سے دوستانہ تعلقات ہیں۔"یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہوئی ہان اکثریت سے بہت قریب ہیں۔ وہ دیگر قومیتوں کے ہم مذاہب کے مقابلے ان سے زیادہ قریب ہیں۔"

دوسری طرف ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ چین میں ایک اور بڑا مسلم گروپ ایغوروں کا ہے، جسے"منظم ذلّت، سزا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔"

بیجنگ سے دو رمغربی سنکیانگ خود مختار علاقے میں مبینہ پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں، جہاں بیشتر ایغوروں کو رکھا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ایسا مسلم اقلیت کو پیشہ ورانہ تربیت دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

ان مراکز میں انہیں چینی اور کمیونسٹ نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری ان کیمپوں کو حراستی مرکز قرار دیتی ہے جس کا مقصد مذہبی تشخص کو ختم کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے سن 2019 میں بتایا تھا کہ تمام" پیشہ ور طلبہ" اب" گریجویٹ" ہو چکے ہیں اس لیے انہیں رہا کردیا گیا ہے۔

جرمنی کی ورز برگ یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات سے وابستہ جورن الپرمین کہتے ہیں " اس کا مطلب ایغوروں پر ظلم کا خاتمہ نہیں ہے۔" انہوں نے کہا کہ بیجنگ سنکیانگ میں اقلیتی نسلی گروہوں کے الحاق کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور ثقافتی نسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے۔ "البتہ اب یہ جبر پوشیدہ انداز میں کیا جارہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اب سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے چیکنگ کی جگہ نگرانی کیمروں نے لے لی ہے۔ اس کا مقصد اب بھی اقلیتی نسلی گروہوں کو ہان چینیوں میں ضم کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان پر قابو پانا ہے۔"

سابقہ مردم شماری کے مطابق سنکیانگ میں تقریباً 11.6ملین ایغور تھے، ان کے ساتھ تقریباً 11ملین ہان چینی بھی وہاں رہتے ہیں۔

مسلمانوں کو بھی چین میں بیرونی ممالک سے براہ راست رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے
مسلمانوں کو بھی چین میں بیرونی ممالک سے براہ راست رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہےتصویر: DW

مذہبی عقیدہ کو سماجی طورپر قبولیت نہیں

بہت سے ایغور مسلمانوں نے اپنا آبائی صوبہ چھوڑ دیا ہے۔ وہ چین کے بڑھتے ہوئے میٹروپولیٹن علاقوں میں مسلم ریستورانوں میں بہتر معاوضے والی ملازمت تلاش کرتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ اپنا عقیدہ عام طور ظاہر نہیں کرتے۔

رمضان کے مہینے میں بیجنگ کے سنلیتون ضلعے میں میری ملاقات ایک ویٹریس سے ہوئی۔ ان کے نوڈل سوپ کے ریستوراں میں دیوار پر چینی زبان میں لکھا تھا،"اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا کھانا منع ہے۔ سوّر کے گوشت کی اجازت نہیں ہے۔"

یہ عید الفطر سے تین دن پہلے کی بات ہے۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کب سورج غروب ہو اور کب وہ کھانا کھائے۔اس نے میری طرف دیکھا، پہلے غصے سے، پھر اپنے آئی فون کی طرف اور پھر میر ے کان میں سرگوشی کی، "براہ کرم دوسرے مہمانوں کو پریشان نہ کریں۔ غروب آفتاب میں ابھی 13منٹ باقی ہیں۔"

ج ا/ ص ز (ڈانگ یوان)

اصل مضمون جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔