1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوپال جیسے سانحے روکنے کے لیے سخت قوانین کی اشد ضرورت

جاوید اختر، نئی دہلی2 دسمبر 2014

بھوپال گیس سانحہ کی آج تیسویں برسی کے موقع پر ماحولیات سے وابستہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسے سانحہ کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کو مستحکم کرنا اور نگرانی کے میکنزم کو موثر بنانا ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/1DyBZ
تصویر: picture-alliance/EPA/Sanjeev Gupta

ماحولیات کے لیے سرگرم موقر ادارہ سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ نے دنیا کے بدترین صنعتی سانحوں میں سے ایک ھوپال گیس سانحہ کی تیسویں برسی کے موقع پراپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے کسی سانحہ کے خدشہ کو ٹالنے کے لیے نئے نئے ادارے قائم کرنے کے بجائے موجودہ اداروں کو ہی زیادہ مستحکم بنانے اور ضابطوں کو سختی سے نافذ کرنے نیز ان کی نگرانی کے لیے موثر میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ایسا ٹھوس قانون بھی ضروری ہے جس سے قصورواروں کو سزا دلائی جا سکے اور قوانین میں موجود خامیوں کا سہارا لے کر بچنے کی ڈو(Dow) کیمیکل جیسی کمپنیوں کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو طاقت ور ملٹی نیشنل کمپنیاں لوگوں کی زندگیوں سے اسی طرح کھیلتی رہیں گی اور بھوپال جیسے سانحے ہوتے رہیں گے۔

خیال رہے کہ امریکہ کی ڈو کیمیکل نے ہی2001 میں بھوپال کی یونین کاربائیڈ کو خرید لیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہی اب کارخانے کی موجودہ مالک ہے اس لیے قانوناَ اسے ہی معاوضہ ادا کرنا چاہیے لیکن ڈو کیمیکل نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ نہ تو معاوضہ ادا کرے گی اور نہ ہی کارخانے میں موجودہ سینکڑوں ٹن پڑے مہلک کیمکلز کو صاف کرے گی۔ بھوپال سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ نئی دنیا کے مدیر سریش بافنا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج یونین کاربائیڈ کے احاطے میں 700 ٹن زہریلا کچرا پڑا ہے اور اس کی صفائی کیسے ہو یہ تنازعہ برقرار ہے۔ کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ پچھلے دنوں جرمنی کے ساتھ اس سلسلے میں بات چیت ہوئی تھی اور کسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ بھی ہو گیا تھا لیکن جرمنی میں اس کی مخالفت کے بعد وہ کمپنی بھی پیچھے ہٹ گئی۔

واضح رہے کہ بھوپال گیس سانحہ معاملے میں حکومت کا رویہ شروع سے ہی غیر سنجیدہ رہا ہے۔ 1989 میں اس نے قانونی چارہ جوئی کا اختیار متاثرین سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور خاموشی سے سپریم کورٹ میں ایک مفاہمت نامہ پیش کر کے یونین کاربائیڈ سے صرف 470 ملین ڈالر پر معاملہ طے کر لیا جب کہ معاہدہ کے تحت کمپنی کو 3.3 بلین ڈالر ادا کرنے تھے۔ گو کہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا لیکن معاوضہ کی رقم جوں کی توں برقرار ہے اور متاثرین کے حصے میں صرف پچیس پچیس ہزار روپے یعنی تقریباﹰ 350 ڈالر آئے۔ 1996میں ایک بار پھرعدالت میں کیس کے دفعات تبدیل کر دیے گئے جس کی رو سے قصورواروں کو صرف دو سال کی سزا دی تھی اور 2010 میں 26 برس بعد جب بھوپال کی ایک نچلی عدالت نے اس کیس میں فیصلہ سنایا تو سات ملزمین میں سے ہر ایک کو صرف دو دو برس کی سزا ملی۔ سریش بافنا کا کہنا ہے کہ اس کیس کے کئی سوالات اب بھی حل طلب ہیں۔ قانون سے متعلق سوالات ہیں، ماحولیات سے متعلق سوالات ہے اور 30 برس بعد بھی ان سوالات کا حل ہونا باقی ہے۔
واضح رہے کہ 2-3 دسمبر 1984 کی رات کو یونین کاربائیڈ کارخانہ سے 40 میٹرک ٹن میتھائل آئسو سائنائٹ زہریلی گیس خارج ہونے سے تین ہزار افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے تھے جب کہ بعد کے برسوں میں 25 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور پانچ لاکھ سے زائد افراد مختلف بیماریوں کا شکار اور ہزاروں دیگر مفلوج ہو چکے ہیں۔ یونین کاربائیڈ کے اس وقت کے چیئرمین وارن اینڈرسن کی گذشتہ ماہ وفات کے بعد انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کی متاثرین کی امیدیں بھی ختم ہو گئیں۔
دریں اثنا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ اگلے ماہ امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ بھارت کے دوران وہ اس معاملے کو ضرور اٹھائیں۔

Zollabfertigung Belarus Russland Grenze
بھوپال گیس سانحہ معاملے میں حکومت کا رویہ شروع سے ہی غیر سنجیدہ رہا ہےتصویر: Alexander Burakov
Bhopal Indien Gas Chemiekatastrophe Explosion
’طاقت ور ملٹی نیشنل کمپنیاں لوگوں کی زندگیوں سے اسی طرح کھیلتی رہیں گی اور بھوپال جیسے سانحے ہوتے رہیں گے‘تصویر: picture-alliance/EPA/Sanjeev Gupta
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید