بھارتی کشمیریوں کا فیس بُک کے ذریعے احتجاج
21 جولائی 2010نوجوان کشمیری دنیا کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے سماجی رابطوں کی امریکی ویب سائٹ ’فیس بک‘ اور ویڈیو ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔
کولیشن آف سول سوسائٹی نامی کشمیری تنظیم کے رابطہ کار خرم پرویز کے بقول حکام سڑکوں پر کیا جانے والا احتجاج تو دُور کی بات، تخیلاتی دنیا یعنی انٹرنیٹ پر بھی احتجاج کو برداشت نہیں کررہے۔ ‘ انہوں نے کہا، کشمیر میں جمہوری انداز سے اظہار رائے کے تمام راستے بند کئے جارہے ہیں۔ پرویز کا کہنا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والے بعض افراد کو تھانوں میں پیش ہونے کے لئے کہا گیا ہے۔
کریک ڈاؤن کا مرکز جنوبی ضلع اننت ناگ ہے جہاں پولیس پر تین نوجوانوں کو مبینہ طور پر فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ یہ واقعات گزشتہ ماہ پیش آئے تھے۔
پولیس حکام البتہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ مقامی پولیس عہدیدار شوکت احمد کے بقول فیس بک استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کو تھانے میں پیش ہونے کے لئے نہیں کہا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کا البتہ دعویٰ ہے کہ بعض کشمیری نوجوان پولیس کے خوف سے اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایسے ہی ایک ستائیس سالہ لڑکے کے بقول، ’پولیس اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ فیس بک یا یو ٹیوب استعمال کرنے پر ہمارے خلاف قانونی کارروائی تو نہیں کی جاسکتی تاہم اگر مظاہروں کی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو دیگر سنگین جرائم میں پھنسا دیا جائے گا۔
‘ خیال رہے کہ ایسی ہی صورتحال ایران میں حکومت مظالف مظاہروں کے دوران سامنے آئی تھی۔ متنازعہ ہوجانے والے صدارتی انتخاب میں صدر احمدی نژاد کے مخالفین نے سیکورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کی ویڈیوز ان ہی انٹرنیٹ ویب سائٹس پر جاری کی تھیں۔
کشمیر کے حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارتی مرکزی حکومت نے ملک کے دیگر حصوں سے کشمیر بھیجے جانے والے موبائل پیغامات ’ایس ایم ایس‘ پر گزشتہ ماہ پابندی عائد کردی تھی۔ حکام مبینہ طور پر ان پیغامات کو مظاہرین کو منظم کرنے اور رائے عامہ قائم کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ 1989ء سے بھارتی انتظام کے خلاف جاری مزاحمت میں اب تک کشمیر میں لگ بھگ سینتالیس ہزار ہلاکتوں کا سبب بن چکی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل