1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی طالبہ کے ساتھ زیادتی کا مقدمہ، چاروں افراد قصوروار

عدنان اسحاق 10 ستمبر 2013

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک عدالت نے ایک طالبہ کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے پر چار ملزمان کو قصور وار ٹھہرا دیا ہے۔ ان مجرمان کی سزا کا اعلان بدھ کے روز متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/19ecA
تصویر: picture-alliance/dpa

گزشتہ برس دسمبر میں نئی دہلی میں ایک 23 سالہ طالبہ کو چھ افراد نے چلتی ہوئی بس میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس مقدمے میں چھ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ ان میں سے ایک نے رواں برس اگست میں دوران حراست خود کشی کر لی تھی جبکہ ایک کو کم عمر ہونے کی وجہ سے کم عمروں کی جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔

آج منگل کے روز دارالحکومت کی ایک عدالت نے ان چاروں ملزمان کو تمام مقدمات میں مجرم قرار دے دیا ہے۔ ان میں آبروریزی اور قتل بھی شامل ہے۔ ان افراد کو سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ جج یوگیش کھنہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ان افراد نے ایک بے یار و مددگار انسان کا قتل کیا ہے۔ اس موقع پر اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی طالبہ کے والدین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، جو مجرمان سے چند گز کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بھارتی قانون کے مطابق والدین کی شناخت کو مخفی رکھا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے وقت مقتول طالبہ کے والدین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ چھوٹا سا کمرہ عدالت وکلاء، پولیس اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ عدالت کے باہر جمع افراد نے فیصلے کے بعد ان افراد کو پھانسی دینے کے حق میں نعرے بازی کی۔ مظاہرین کے بقول یہ مقدمہ بھارتی معاشرے کو جگانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

Indien Vergewaltigung Mord Frau Protest Demonstration Banner Kerzen Bikram Singh Brahma
اس واقعےکے بعد بھارت میں شدید مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے حکومت جنسی زیادتی کے قوانین میں اصلاحات لانے پر مجبور ہو گئیتصویر: dapd

گزشتہ برس سولہ دسمبر 2012ء کو 23 سالہ طالبہ اپنے دوست لڑکے کے ساتھ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی جب ایک بس میں سوار چھ مردوں نے ان دونوں کو بہانے سے بس کے اندر بلایا۔ ان افراد نے طالبہ کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اُسے اور اُس کے دوست کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بعد ازاں یہ افراد ان دونوں کو شدید زخمی حالت میں سڑک پر پھینک کر فرار ہو گئے تھے۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے لڑکی کا پہلے بھارت میں علاج کیا گیا تاہم بعد ازاں اسے علاج کے غرض سے سنگاپور بھیج دیا گیا، جہاں چند ہفتوں بعد یہ طالبہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں چل بسی تھی۔

اجتماعی زیادتی کے اس مقدمے کا فیصلہ متعدد مرتبہ مؤخر کیا گیا۔ پہلے عدالتی فیصلہ گیارہ جولائی کو سنایا جانا تھا لیکن پھر اسے 25 جولائی تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے بعد عدالت کی جانب سے فیصلے کے لیے پانچ اگست کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اور بعد میں اسے ایک مرتبہ پھر ملتوی کر دیا گیا تھا۔

اس واقعےکے بعد بھارت میں شدید مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے حکومت جنسی زیادتی کے قوانین میں اصلاحات لانے پر مجبور ہو گئی۔ عصمت دری کے طویل مقدموں سے بچنے کے لیے بھارت میں اب تیزی سے فیصلہ کرنے والی عدالتیں قائم کر دی گئی ہیں۔