1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بھارتی جیلوں میں بند مسلم طلبہ کو رہا کیا جائے'

1 جون 2020

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار متعدد تنظیموں نے بھارتی حکومت سے سیاہ ترین قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والے مسلم طلبہ کی صورتحال پرگہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3d6Wj
Indien Neu Delhi l Protest gegen Einbürgerungsgesetz
تصویر: Reuters/A. Abidi

 دنیا کی دو درجن سے زائد حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک مکتوب میں ان مسلم طلبہ کی فوری طور پر رہائی کا مطالبہ کیا ہے جنہیں حکومت نے انسداد دہشتگردی جیسے سیاہ ترین قوانین کے تحت جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاریوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور حکومت محض شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے لیے انہیں سزا دے رہی ہے۔

اس سے متعلق طویل خط میں سب سے پہلا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر کا ہے جو چار ماہ کی حاملہ ہیں اور گزشتہ دو ماہ سے دلی کے تہاڑ جیل میں بغیر کس عدالتی کارروائی کے بند ہیں۔ میران حیدر اور شفاء الرحمان کا تعلق بھی جامعہ ملیہ سے ہے جبکہ شرجیل امام جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ یہ طلبہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مہم کے روح رواں تھے۔

 بی جے پی کی حکومت نے ان جیسے اور بھی کئی افراد کو فسادات برپا کرنے کے الزام میں انسداد دہشت گردی جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ہے اور ان کی ضمانت کی گنجائش بھی کم ہی نظر آتی ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت یورپ، امریکا، افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی25 تنظیموں نے حکومت کے اس قدم پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ 

Indien Neu Delhi l Protest gegen Einbürgerungsgesetz
تصویر: Reuters/A. Abidi

انہوں نے خط میں لکھا ہے، ''کووڈ 19 وبا کے دوران قید میں ان کی زندگی اور صحت کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ ان چاروں کارکنان کے ساتھ ساتھ ان تمام افراد کو بھی فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کریں، جو صرف حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے اپنے اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال کر رہے تھے۔''

ان تنظیموں نے حکومت پر قانون کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان طلبہ کو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے لیے سزا دی جا رہی ہے۔ ''ہمیں سخت تشویش ہے کہ بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کو کمزور کرنے، احتجاج اور پریس کی آزادی کو دبانے کے لیے (یو اے پی اے)  جیسے انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کا باقاعدگی سے غلط استعمال کیا ہے۔''

سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے حکومت نے دانستہ طور پر یو اے پی اے کا استعمال کیا ہے تاکہ ضمانت نہ مل سکے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''یہ سب وزیر داخلہ امیت شاہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وہ ان افراد کو سبق سکھانا چاہتے ہیں جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں پیش پیش تھے۔''

Indien, Neu-Delhi: Protestierende Jamia Milia Islamia Studenten
تصویر: DW/A. Ansari

محمود پراچہ ایک خاتون گل افشاں کا بھی کیس لڑ رہے ہیں جو جعفرآباد میں شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی روح رواں تھیں۔ ان پر بھی یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مسٹر پراچہ نے اس طرح کے کیسز کی نوعیت بتاتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ دہلی پولیس کے ایک سب انسپکٹر نے ''مخبر خاص کے حوالے'' سے کیس دورج کروایا ہے۔ الزام یہ ہے کہ ٹرمپ کے دورے کے دوران مسلمانوں کے ساتھ مظالم کے حوالے سے بھارت کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔''

مسٹر پراچہ کا کہنا ہے کہ قانوناً مخبر خاص کون ہے اس کا نام نہیں لیا جا سکتا اور اس طرح کے تمام الزامات کا حکومت کے پاس چونکہ کوئی ایک بھی ثبوت نہیں ہے تو اس طرح کا قانون استعمال کیا گیا تاکہ عدالتیں ضمانت بھی نہ دے سکیں۔   

ایک سوال کے جواب میں مسٹر پراچہ نے کہاکہ ''وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی نگرانی میں ان افراد کو پھنسایا ہے اور عدالتوں پر بھی اس قدر دباؤ ہے کہ ان کیسز کی سماعتیں التوا کا شکار ہورہی ہیں۔'' ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آخر حکومت مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اپنا رہی ہے، تو انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو ختم کیا جا سکے۔

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘