بھارتی انتخابات اور کشمیریوں کے خصوصی آئینی حقوق
11 اپریل 2019کانگریس کی جانب سے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘ (افسپا) اور شورش زدہ علاقوں کے خصوصی ایکٹ (1976) میں ترمیم کے انتخابی وعدے کی انسانی حقوق کے کارکنوں اور جمہوریت پسند حلقوں نے پذیرائی کی ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوتوا کا پرچار کرنے والی تنظیموں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس کے منشور کے مطابق ’افسپا‘ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ ’سکیورٹی فورسز کے اختیارات اور شہریوں کے انسانی حقوق کے مابین توازن قائم ہو اور جبری گمشدگیوں، جنسی تشدد اور ماورائے قانون جسمانی تشدد کے حوالے سے سکیورٹی فورسز کو حاصل، قانون سے بالاتر اختیارات کا خاتمہ ہو سکے‘۔
بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتھارامن نے ایک پریس کانفرنس میں اس اعلان کو ’قوم دشمنی اور علیحدگی پسندوں سے دوستی‘ کا مظہر قرار دیا۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے الفاظ میں، ’’کانگریس دہشت گردوں اور بھارت مخالف قوتوں کو تقویت پہنچا رہی ہے۔‘‘
چھتیس گڑھ کے انتخابی جلسے سے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا، ’’کانگریس دہشت گردوں کو چھوٹ دینے کے لیے چناؤ لڑ رہی ہے اور ہم انہیں سزا دینے کے لیے۔ کانگریس نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والی بہادر فوج کے محافظ قانون کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
سن 1954میں بھارتی صدر راجندر پرشاد کے صدارتی فیصلے کے تحت بھارت کے آئین میں آرٹیکل 35a شامل کیا گیا تھا جو بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور کشمیر کے لیڈر شیخ عبدللہ کے مابین مذاکرات کا نتیجہ تھا۔
اس شق کے تحت 1921 میں بنائے گیے قانون کو قائم رکھا گیا تھا کہ ریاست کشمیر میں کوئی غیر کشمیری جائیداد نہیں خرید سکتا، سرکاری نوکری نہیں کر سکتا اور ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ اسی طرح مواصلات، دفاع اور خارجہ امور کے سوا تمام معاملات میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو بااختیار قرار دیا گیا تھا۔ اس موقع پر پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے، پنڈت جواہر لعل نہرو کا کہنا تھا، ’’اتفاق رائے کے مطابق، کشمیر کی اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے حقوق اور مراعات کی تعریف متعین کرنے کا اختیار ہو گا خصوصا جائیداد کی خرید، سرکاری ملازمتوں کے حصول اور اس نوعیت کے دیگر معاملات کے حوالے سے۔‘‘
’یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی‘
ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے برسلز میں کشمیریوں کی تنظیم ’کشمیر کونسل یورپی یونین‘ کے سربراہ علی رضا سید نے بی جے پی کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا،’’اس وقت بھارت نواز سیاسی راہنما بھی اس اعلان کی شدید مخالفت کر رہے ہیں، فاروق عبدللہ نے کہا ہے کہ اس کے خاتمے سے کشمیر کا بھارت سے الحاق ختم ہو جائے گا جب کہ محبوبہ مفتی نے تنبیہ کی ہے کہ بھارت آگ سے مت کھیلے۔‘‘
جموں کے معروف انگریزی روزنامہ، کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور انسانی حقوق کی کارکن انورادھا بھسین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی حمایت کرنے والے طبقے بھی اس تبدیلی کی مخالفت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ پسماندہ پہاڑی علاقہ ہے اور تعلیم کی شرح اچھی نہیں ہے۔ یہاں کھلا مقابلہ مقامی لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا۔‘‘ انورادھا بھسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کانگریس نے افسپا اور اس جیسے دیگر قوانین کے خاتمے کا اعلان کر کے اور ہندتوا کی فورسز کے خلاف معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے بھارت کے جمہوریت پسند اور امن پسند حلقوں کی نمائندگی کی ہے‘۔
اسی حوالے سے ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے، یورپی پارلیمنٹ کے رکن سجاد حیدر کریم کا کہنا تھا، ’’بی جے پی کا یہ اعلان ایک تاریخی غلطی ہے۔ اس سے جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات کو ضعف پہنچے گا اور کشمیریوں کے جان و مال کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘ انہوں نے کانگریس کی جانب سے افسپا میں ترمیم کے وعدہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’’یہ قانون انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کا سبب بن رہا ہے۔‘‘
سری نگر میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ’جموں و کشمیر سول سوسائٹی اتحاد‘ کے سربراہ خرم پرویز نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’بی جے پی1990 سے اپنے تمام انتخابی منشوروں میں آرٹیکل370 کے خاتمے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو نیست و نابود کرنے کا وعدہ کر رہی ہے جو ابھی تک محض ایک انتخابی نعرہ ثابت ہوا ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایسی کسی کوشش کے نتیجہ میں کشمیری عوام بھارتی حکمرانی کے خلاف نکل کھڑے ہوں گے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ کانگریس نے پہلی مرتبہ افسپا میں ترمیم کا اعلان کیا ہے۔ ’’یہ ایک خوش آئند بات ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ محض ایک انتخابی نعرہ ہے یا ایک سنجیدہ فیصلہ کیوں کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کشمیر کی ابتر صورت حال کی بنیادی ذمہ داری کانگریس ہی پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
سیکولرازم یا ہندوتوا: ایک فیصلہ، ایک دوراہا
بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ایک ’خوشحال، محفوظ، مضبوط اور خود اعتماد‘ بھارت کا وعدہ کیا ہے جو دہشت گردی اور دہشت گردوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کرے گا اور انہیں ان کے ’گھر میں گھس کر‘ قرار واقعی سزا دے گا۔
بی جے پی، عام خیال کے مطابق، پلوامہ واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی قوم پرستی کی لہر کو اپنی انتخابی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قوم سازی کے ایک ایسے تصور کا پرچار کر رہی ہے جو، بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک سیکولر بھارت کے لیے سزائے موت کا اعلان ہو گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں ملکی فوج کو ’فری ہینڈ‘ دینے کے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’دور رس مقاصد کے حصول کے لیے بھارت کو اندرونی اور بیرونی جارحیت سے محفوظ بنانا ضروری ہے۔‘ علاوہ ازیں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ایک مرتبہ پھر رام مندر کی تعمیر کا وعدہ بھی کیا ہے۔
دوسری جانب کانگریس کے منشور میں افسپا اور غداری ایکٹ میں ترمیم کے ساتھ ساتھ نیشنل سیکیورٹی ایکٹ، پبلک سیکیورٹی ایکٹ اور غنڈہ ایکٹ سمیت اس نوعیت کے کئی قوانین میں ترامیم کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بلدیاتی، صوبائی اور قومی سطح پر خواتین کی تینتیس فیصد نمائندگی، معلومات کے حصول کا حق، صحافیوں کے تحفظ کے خصوصی قوانین، بپھرے ہجوم کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل عام کے خلاف قانون سازی اور مذہبی منافرت پر مبنی جرائم کے خلاف پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں قانون سازی کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
منشور کے پیش لفظ میں راہل گاندھی نے لکھا ہے، ’’سوال یہ ہے کہ کیا بھارت شہری آزادیوں کا حامل ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہو گا یا بھارت پر ایک ایسے خطرناک نظریے کی حکمرانی ہو گی جو لوگوں کے حقوق، ملکی اداروں، مثبت سماجی قدروں اور اس صحت مند اختلاف رائے کو پامال کردے گا جو ہمارے ثقافتی اور مذہبی تنوع کا خاصہ ہے۔‘‘