بھارت کے لیے ایس چار سو روسی میزائل: پاکستان کے لیے خطرہ؟
5 اکتوبر 2018روس اور بھارت کے درمیان اس دفاعی نظام کی خریداری کے حوالے سے کافی عرصے سے بات چیت چل رہی تھی لیکن اس بارے میں ایک سمجھوتے پر باقاعدہ دستخط آج جمعہ پانچ اکتوبر کو روسی صدر پوٹین اور بھارتی وزیر اعظم مودی کے مابین نئی دہلی میں ہونے والی ایک ملاقات میں کیے گئے۔ ماہرین کے بقول اربوں ڈالر مالیت کے اس دفاعی نظام سے بھارت کا دفاع تو مضبوط ہو گا لیکن ساتھ ہی اس وجہ سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت بھی آ جائے گی۔
دفاعی امور کے ماہر جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کے خیال میں پاکستان اور چین کے لیے یہ خبر بڑی پریشان کن ہے، ’’یہ دنیا کا سب سے مضبوط دفاعی نظام ہے۔ ایس چار سو سسٹم کئی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس ایسا سسٹم ہے کہ وہ کئی میزائل چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن بھارت کے پاس اس دفاعی نظام کے بعد اسٹریٹیجک لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ پوزیشن زیاددہ عرصے تک برقرار نہیں رہے گی۔‘‘
جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ یا تو یہی نظام خود بھی حاصل کر لے یا پھر اس کا کوئی متبادل حاصل کرے۔ جنرل امجد شعیب نے کہا، ’’لیکن یہ سسٹم خریدنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ یہ بہت مہنگا ہے۔ میرے خیال میں چین کو بھی روس یہ سسٹم دے رہا ہے، جو شاید اگلے سال تک اسے مل جائے۔ چین اس سے ملتا جلتا سسٹم بنا لے گا، جو سستا بھی ہوگا اور پاکستان کو آسانی سے مل بھی جائے گا۔ لیکن جب تک یہ سسٹم نہیں ملے گا، اسلام آباد کو تشویش رہے گی اور خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہو جائے گا، جو پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔‘‘
پاکستان اور بھارت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کی ضد میں زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدے ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان بھی چین سے نہیں بیٹھے لگا بلکہ وہ سر توڑ کوشش کرے گا کہ اسی طرح کا نظام حاصل کرے۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے خیال میں اس خریداری سے خطرے کی گھنٹی صرف اسلام آباد میں ہی نہیں بجے گی بلکہ بیجنگ میں بھی پالیسی ساز اداروں کے ماہرین پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرا خیال ہے کہ چین اور پاکستان اس کو مشترکہ خطرہ قرار دیں گے اور سر توڑ کوشش کریں گے کہ اس کا توڑ کیا جائے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان اور چین میں قومی سلامتی کے ادارے آنے والے وقت میں اس پر سر جوڑ کربیٹھیں گے تاکہ ایس400 کے حوالے سے کوئی مشترکہ پالیسی بنائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خطے میں جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی دوڑ بڑھے گی اور اس کا نقصان خطے کی غریب عوام کو ہو گا۔‘‘
تاہم کچھ حلقوں میں یہ تاثر بھی ہے کہ بھارت ایک غیر محسوس طریقے سے پاکستان کو ہتھیاروں کی اس دوڑ میں کھینچ رہا ہے تاکہ پاکستانی معیشت پر اس کا منفی اثر پڑے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں بھارت امریکا کے نقش قدم پر چل رہا ہے، جس نے ماضی میں سوویت یونین کو اسی طرح ہتھیاروں کی دوڑ میں پھنسا کر اس کی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا۔
ایوب ملک نے کہا، ’’امریکی صدر ریگن نے اسٹار وار کا اعلان کر کے سوویت یونین کی نیندیں حرام کر دی تھیں، جس کی وجہ سے سوویت رہنماؤں نے ہتھیاروں پر بے تحاشا وسائل خرچ کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے وہاں سماجی انتشار پیدا ہو گیا، جو سوویت یونین کے لیے تباہ کن ثابت ہوا تھا۔ بھارت کو علم ہے کہ پاکستان کی معیشت بڑی نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی نئی دہلی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے وسائل ہتھیاروں پر خرچ کرے گا۔ اس سے لازمی بات ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل بڑھیں گے، سماجی انتشار بڑھے گا اور ملک کو نقصان پہنچے گا۔ لیکن نئی دہلی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج کی دنیا میں انتشار ملکی نہیں بلکہ علاقائی ہوتا ہے۔ عرب ریاست شام اس کی ایک زندہ مثال ہے۔‘‘