1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بھارت کی مسلمان خواتین کے لیے بڑی کامیابی‘

بینش جاوید
31 جولائی 2019

بھارتی پارلیمان نے 'ٹرپل طلاق‘ کے خلاف بل منظور کر لیا ہے۔ دو سال قبل بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ٹرپل طلاق مسلمان خواتین کے آئینی حقوق کی پامالی ہے اور اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/3N4HC
فائل فوٹوتصویر: IANS

بھارت کے وزیر قانون روی شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ بھارتی سینیٹ کی جانب سے اس بل کی منظوری ظاہر کرتی ہے کہ بھارت بدل رہا ہے اور یہاں خواتین خود مختار ہو رہی ہیں۔ بھارتی قومی اسمبلی میں اس بل کو گزشتہ ہفتے منظور کیا گیا تھا۔ ملکی صدر کی منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

بھارت کے تقریباﹰ 170 ملین مسلمانوں کا تعلق سنی مسلک سے ہے اور وہ 'مسلم قانون برائے امور خانہ‘ کے تحت اپنے گھریلو مسائل حل کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے تحت مسلمان مرد اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق کہہ کر اسے طلاق دے سکتا تھا۔ چاہے یہ الفاظ ایس ایم ایس پیغام، سوشل میڈیا یا کسی اور طرح کہے گئے ہوں۔ دنیا میں پاکستان سمیت بیس ایسے اسلامی ممالک ہیں جہاں مسلمان مردوں کا اس طرح اپنی اہلیہ کو طلاق دینا جائز نہیں ہے۔

اس بل کی منظوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی منظوری کو قریب ایک سال تک روکے رکھا تھا۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں اپوزیشن جماعتوں میں کچھ اختلافات نے اس بل کی منظوری میں مدد فراہم کی ہے۔

بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد  کا کہنا ہے کہ اکثر اپوزیشن جماعتوں کو اس بل کی ایک شق پر شدید اختلاف تھا۔ اس شق کے تحت تین مرتبہ طلاق کا لفظ ادا کر کے طلاق دینے والے شوہر کو تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔  کچھ مخالفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا ہو جانے کی صورت میں تین سال تک اس خاتون کی مالی مدد کون کرے گا اور جب شوہر تین سال بعد جیل سے واپس گھر جائے گا تو کیا اس کی اہلیہ اور اس میں محبت کا رشتہ قائم ہو سکے گا۔ لیکن اس شق پر اٹھائے جانے والے اعتراض کے حوالے سے حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان شازیہ علمی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' اگر خاتون اپنی شکایت کو واپس لیتی ہے تو شوہر کی سزا ختم ہو سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،'' مسلمان خواتین ایک خوف میں رہ رہی تھیں کہ انہیں کبھی بھی چھوڑا جا سکتا ہے اور گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ مرد واٹس ایپ کے ذریعے اپنی بیویوں کو طلاق دے رہے تھے، بھارت کی مسلمان خواتین اس قانون کو اپنی بہت بڑی کامیابی ٹہرا رہی ہیں۔‘‘

Indien Protest gegen Triple Talaq
فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Purkait

اس معاملے پر بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ رائے دیتی رہی ہیں جہ بہت سی غریب اور بے سہارا مسلمان خواتین کو ان کے شوہر تین مرتبہ طلاق کہہ کر گھر سے نکال دیتے ہیں اور یوں ایک عورت نہ صرف بے سہارا ہو جاتی ہے بلکہ شوہر کی جانب سے بچوں کو اپنے پاس نہ رکھنے کی صورت میں اس عورت پر  اپنے بچوں کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔