1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کنوار پن کی جانچ کے خلاف آواز اٹھانے والے عتاب میں

جاوید اختر، نئی دہلی
23 جنوری 2018

 بھارت میں سہاگ رات پر دلہنوں کے کنوار پن کی جانچ کی قبیح رسم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو خود اپنے ہی فرقے کے ہاتھوں عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ بھارت میں یہ روایت بہت قدیم ہے۔

https://p.dw.com/p/2rN2k
Indien Philantrop sponsort Massen-Hochzeit
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Solanki

یہ واقعہ صوبہ مہاراشٹر میں پُونے شہر کے پمپری انڈسٹریل ٹاؤن میں اُس وقت پیش آیا جب ’اسٹاپ دی وی ریچوئل‘ نامی ایک گروپ کے تین اراکین اپنے ایک دوست کی شادی میں شرکت کے لئے گئے تھے۔ جہاں کنجر بھٹ فرقے میں سہاگ رات پر دلہن کی دوشیزگی کی جانچ کرنے پر شادی میں شریک دیگر لوگوں سے ان کی بحث ہوگئی، جس کے بعد تقریباً چالیس لوگوں نے ان تینوں کو بری طرح پیٹ دیا۔

متاثرین میں سے ایک پرشانت انکش اندیکر نے مقامی تھانے میں شکایت درج کرائی جس میں لکھا تھا،’’ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک شادی میں مدعو تھے ، شادی کی رسمیں مکمل ہونے کے بعد برادری کی پنچایت بیٹھی جس میں دلہن کے کنوار پن کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہاں موجود کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ میں اس رسم کے خلاف مہم چلارہاہوں۔ ان لوگوں نے مجھ پر چلا نا شروع کردیا اور جلد ہی تقریباً چالیس لوگوں نے ہماری پٹائی شروع کردی۔‘‘ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں دو افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

دوشیزگی کی جانچ کی رسم کیا ہے؟

ہندووں کے کنجر بھٹ فرقہ میں رسم ہے کہ گاؤں کی پنچایت سہاگ رات کو دلہا اور دلہن کو سفید چادر مہیا کرتی ہے۔ اگلی صبح اگر اس پر لال دھبہ ملتا ہے تو دلہن اس آزمائش میں کامیاب تصور کی جاتی ہے ورنہ اُس پر شادی سے قبل کسی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کا الزام عائد کرکے اذیت دی جاتی ہے۔ بعض اوقات سزا کے طور پر  اُس کے جسم کو داغا جاتا ہے یا کھولتے ہوئے تیل میں پڑا سکّہ نکالنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں پنچایت دلہن کی کوئی بات سننے کی روادار نہیں ہوتی البتہ شادی کو جائز ٹھہرانے کے لئے اس سے ’جرمانے‘ کے نام پر بھاری رقم اینٹھ لی جاتی ہے۔

Indien Philantrop sponsort Massen-Hochzeit
بھارت کے مختلف حصوں میں ہندوؤں کے دیگر فرقوں میں بھی یہ رسم پائی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Solanki

یہ رسم صرف کنجر بھٹ فرقے تک ہی محدو د نہیں ہے

دوشیزگی کی جانچ کے ٹسٹ کی یہ قبیح رسم صرف کنجر بھٹ فرقے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارت کے مختلف حصوں میں ہندوؤں کے دیگر فرقوں میں بھی یہ رسم پائی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات خود حکومت بھی ایسی رسومات میں ملوث ہوجاتی ہے۔

 بی جے پی کی قیادت والی مدھیہ پردیش حکومت نے سن 2009 میں اجتماعی شادی کے ایک پروگرام سے قبل ایک سو باون لڑکیوں کے کنوار پن کی جانچ کرائی تھی۔ سن 2013 میں بھی ایک بار پھر حکومتی سطح پر اجتماعی شادی سے قبل تقریباﹰ ساڑھے چار سو لڑکیوں کے ورجینیٹی ٹسٹ کرائے گئے تھے۔ جب لوگوں نے اس کی مخالفت کی تو حکومت نے اسے درست ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ جانچ اس لیے کرائی گئی تھی تاکہ شادی شدہ خواتین  حکومت کی طرف سے ملنے والا ’تحفہ‘ دھوکے سے دوبارہ وصول نہ کرلیں۔

 خیال رہے کہ ’مکھیا منتری کنیا دان یوجنا‘ نام کی اس اسکیم کے تحت شادی کرنے والی لڑکی کو نو ہزار روپے کی مالیت کے گھریلو ساز و سامان ’تحفے‘ میں دیے جاتے ہیں۔

رسم کے خلاف بلند ہوتی آوازیں

اس قبیح رسم کے خلاف لوگ اب آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ دہلی میں چند سال قبل اس رسم کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا جبکہ پُونے میں دوشیزگی کے ٹسٹ کے خلاف ایک گروپ سرگرم ہے۔ اس گروپ کے بانی اور ملک میں سماجیات کے اعلی ترین ادارے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز میں ماسٹرز ڈگری کے طالب علم وویک تمائی چیکر کہتے ہیں،’’یہ رسم بھارت کے آئین کے خلاف ہے، ہم لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رسم عورتوں کے وقار کے منافی ہے۔‘‘ وویک کے مطابق یہ ٹسٹ ہر جوڑے کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ پنچایت کے لوگ دُلہا دُلہن کی خواب گاہ کے باہر بیٹھے رہتے ہیں جو ایک طرح سے پرائیویسی کے حق کے خلاف ہے۔‘‘

یہ رسم بہت پرانی ہے

ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ بھارت میں ’ورجینیٹی ٹسٹ‘ کی روایت کافی قدیم ہے۔ وہ اس حوالے سے ہندوؤں کے بھگوان رام سے وابستہ اُس واقعے کا ذکر کرتے ہیں جب ایک عام شخص کے طنز کرنے پر ان کی بیوی سیتا کو اپنے شوہر سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے آگ پر سے گزرنا پڑا تھا۔

اسی حوالے سے خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم کارکن اور مصنفہ سلونی مہیشوری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ ایسے وقت میں جب خواتین ہر میدان میں کامیابی کے پرچم لہرارہی ہیں اور پرانے رسوم و رواج ٹوٹ رہے ہیں بھارت میں اب بھی ایسی برادریاں موجود ہیں جو کنوارپن کے ٹسٹ پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ جانچ کسی بھی عورت کے لئے اذیت ناک ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ پردہء بکارت کسی خاتون کی دوشیزگی کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ مختلف اسباب سے یہ ضائع بھی ہوجاتا ہے۔‘‘

سلونی مہیشوری کا مزید کہنا تھا کہ عورتوں کو اپنی دوشیزگی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ افراد اور فرقوں کو اس حوالے سے اپنا ذہن صاف کرنا چاہئے۔‘‘