1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ڈاکٹروں کی ملک گیر ہڑتال، صحت خدمات متاثر

جاوید اختر، نئی دہلی
11 دسمبر 2020

بھارت میں حکومت کی طرف سے دیسی طریقہ علاج آیوروید کے ماہرین کو سرجری کی اجازت دینے کے خلاف لاکھوں ڈاکٹر آج ملک گیر ہڑتال پر ہیں جس کی وجہ سے ہیلتھ سروسز بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3mZKP
Indien Greater Noida | Sharda Hospital
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana

ماڈرن میڈیسن سے وابستہ بھارتی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دیسی طریقہ علاج آیوروید اور جدید طب کو خلط ملط کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے سے بھارت کے ایک ارب تیس لاکھ سے زائد شہریوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور یہ قدم ڈاکٹروں کی تعلیمی صلاحیت کی 'توہین‘ کے مترادف ہے۔

بھارت میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کی اپیل پر ڈاکٹروں کی ملک گیر بندش کی وجہ سے کووڈ۔19اور ایمرجنسی خدمات کو چھوڑ کر دیگر تمام طبی سرگرمیاں پوری طرح بند ہیں۔ بعض ریاستی حکومتوں کی جانب سے ہڑتال کے خلاف قانون نافذ کرنے کے باوجود سرکاری اور پرائیوٹ دونوں ہی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں نے خدمات بند کر رکھی ہیں۔

’مکسو پیتھی‘  ہے اصل مسئلہ

ڈاکٹروں نے ہڑتال کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب مودی حکومت نے گزشتہ ماہ ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے آیوروید کے ماہرین کو بھی 58 اقسام کی سرجری کرنے کی اجازت دے دی۔ آئی ایم اے کا کہنا ہے کہ یہ دراصل پچھلے دروازے سے جدید طب کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ آئی ایم اے نے حکومت کے فیصلے کو 'مکسوپیتھی‘ کانام دیا ہے۔

ایک سرکاری ہسپتال کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سندیپ کمار کا اس حوالے سے کہنا تھا ”آیوروید ڈاکٹروں کو سرجری کی اجازت دینا اصل مسئلہ نہیں ہے۔ چھوٹی موٹی سرجری تو وہ پہلے سے کررہے ہیں۔ انہیں اس کی ڈگری بھی ملتی ہے۔ اصل مسئلہ دونوں طریقہ علاج کو خلط ملط کردینا ہے۔ چونکہ پیچیدہ سرجری میں انستھیزیا دینا پڑتا ہے اور وہ جدید طب سے ہی ممکن ہے۔ حکومت آیوروید کوفروغ دے، اس میں کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن دونوں طریقہ علاج کو خلط ملط کرنے سے غلط فہمی پیدا ہوگی۔ آیوروید خود اپنے سارے طریقے ڈیولپ کرلے اور سرجری کرے۔"

آئی ایم اے کے سکریٹری ڈاکٹر ہیمنگ ویشیہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماڈرن میڈیسن میں مسلسل تحقیق ہوتی رہتی ہے جب کہ آیوروید کا علاج اور تحقیق بھارت تک ہی محدود ہے۔ اس کے علاوہ تمام طریقہ ہائے علاج کو ایک ساتھ ملانے کا کوئی جواز نہیں ہے کیوں کہ اس سے مریضوں کو نقصان ہوگا۔

آیوروید ماہرین کا موقف

 آیوروید کے ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ وہ مدتوں سے سرجری کرتے آرہے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح تربیت یافتہ ہیں۔ بھارت میں آیوروید ماہرین کی ملک گیر تنظیم آیوش انٹیگریٹیڈ میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی صدر ڈاکٹر آرپی پراشر نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ایلوپیتھی والے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی سرجری کرسکتے ہیں تو یہ بے وقوفی ہے۔اگر حکومت کے اقدام سے عوام کو صحت کی سہولیات حاصل ہورہی ہیں تو اس سے انہیں کیا پریشانی ہے؟"  پراشر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے صرف ایسے آیوروید ڈاکٹروں کو سرجری کرنے کی اجازت دی ہے جو آٹھ سالہ کورس کرنے کے بعد تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔

معاملہ کیا ہے؟

 بھارت میں روایتی اوردیسی طریقہ علاج کی وزارت'آیوش‘ نے 20 نومبر کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے ماسٹر آف سرجری کی ڈگری رکھنے والے آیوروید ڈاکٹروں کو بھی 39 اقسام کی جنرل سرجری اور آنکھ، کان، ناک اور گلے سے متعلق 19طرح کی سرجری کی اجازت دے دی تھی۔ وزارت آیوش کے تحت آیوروید سمیت چھ بھارتی طریقہ علاج یونانی، یوگا، نیچروپیتھی، سدھا اور ہومیوپیتھی شامل ہیں۔

قدرتی طریقہء علاج آج بھی مقبول

آیوروید پر خاص عنایت

 مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے آیوروید کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ حکومت نے 2014 میں دیسی طریقہ علاج کے فروغ کے لیے 'آیوش‘ کے نام سے ایک علیحدہ وزات قائم کردی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس جاپان میں منعقدہ جی ٹوئنٹی کانفرنس میں بھی آیوروید اور بھارت کے دیگر روایتی طریقہ علاج کا خصوصی طورپر ذکر کیا تھا۔

گوکہ وزارت آیوش، تمام دیسی طریقہ علاج کے فروغ کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن دیگر دیسی طریقہ علاج سے وابستہ افراد کو شکایت ہے کہ حکومت نے انہیں نظر انداز کردیا ہے اور آیوروید پر اس کی خاص عنایت ہے۔ بھارت میں جہاں ہر چیز کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ایسے میں آیوروید کو ہندو تہذیب و ثقافت سے جو ڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ یونانی طریقہ علاج کو مسلمانوں سے منسوب کردیا گیا ہے۔

یونانی ڈاکٹروں کی اپیل

’آیوش‘ کا حصہ ہونے کے باوجود یونانی طریقہ علاج کے ماہرین کو بھی سرجری کی اجازت سے متعلق نوٹیفیکیشن میں شامل نہیں کرنے پر یونانی حکماء کی تنظیم نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور یونانی پیتھی کے ماہرین کو بھی سرجری کی اجازت دینے کی اپیل کی ہے۔

یونانی حکیموں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا یونانی طبی کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط ارسال کیا ہے۔ اس حوالے سے تنظیم کے قومی صدر پروفیسر مشتاق احمدنے ڈ ی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ زمانہ قدیم سے ہی یونانی طریقہ علاج میں علم جراحت موجود ہے اور بھارت میں پوسٹ گریجویٹ سطح پر یونانی طلبہ کو بھی علم الجراحت پڑھائی جاتی ہے۔ ایسے میں یونانی طب کونظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔"

جاوید اختر/ ک م

بھارتی شہری دے رہے ہیں ترجیح دیسی کھانوں کو

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں