1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: چرچ میں توڑ پھوڑ کے بعد متاثرین ہی کے خلاف مقدمہ درج

جاوید اختر، نئی دہلی
5 اکتوبر 2021

بھارتی صوبے اتراکھنڈ میں ایک چرچ میں توڑ پھوڑ کے کئی دن بعد بھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جبکہ پولیس نے متاثرین ہی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ متاثرین اسے آئندہ انتخابات کے پیش نظر سیاسی اغراض پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/41H4F
Indien Protest Christen gegen Anschläge auf Kirchen 05.02.2015
تصویر: S. Hussain/AFP/Getty Images

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اتر اکھنڈ کے علاقے روڑکی میں ایک چرچ پرتین اکتوبر کو 200 سے زائد شر پسندوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ حملہ مبینہ طورپر ہندو انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ مشتعل ہجوم نے فرنیچر، تصویریں اور موسیقی کے آلات وغیرہ بھی توڑ دیے تھے۔ انہوں نے 'وندے ماترم‘ اور 'بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے بھی لگائے تھے۔

بھارت کے لیے بدنامی کا سبب

آل انڈیا کیتھولک یونین کے ترجمان جان دیال نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتر اکھنڈ اور مرکز میں بی جے پی حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں بھارت کے لیے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

چرچ کی منتظم سادھنا لانس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی شکایت کے باوجود پولیس نے اب تک کسی حملہ آور کو گرفتار نہیں کیا بلکہ الٹا ان کے اور نو دیگر افراد کے خلاف کیس درج کر دیا۔ ان سب پر ایک خاتون کو دھمکی دینے اور حملہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لانس کا کہنا تھا، ”ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتر اکھنڈ پولیس سیاسی دباؤ میں ہے کیونکہ اس نے اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ الٹا خود ہمارے ہی خلاف کیس درج کر لیا۔ یہ سیاسی اغراض پر مبنی ہے۔"

اتراکھنڈ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ لانس کے خلاف درج کیس بظاہر مشکوک دکھائی دیتا ہے۔

’’آج ہماری ٹیم نے چرچ کے قریب واقع ایک گھر کے پاس لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کر لی ہے۔ متاثرین کے خلاف درج کرایا گیا کیس بظاہر جھوٹا نظر آتا ہے اور ہم اسے وقت آنے پر منسوخ کر دیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ چرچ پر حملے کے معاملے میں جن لوگوں کے خلاف کیس درج کرایا گیا ہے، ان کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا ہے اور وہ جلد ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔

مذہب تبدیل کرانے کا الزام

بھارت میں کسی مسجد یا چرچ پر حملے کو بالعموم تبدیلی مذہب کے الزام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر مدن کوشک نے ایک بیان میں کہا کہ اس چرچ کا استعمال ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہو رہا تھا۔ ”اس واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں، وہ دراصل اسی کالونی کے رہنے والے تھے اور چرچ کو مذہب کی تبدیلی کے لیے استعمال کیے جانے کی وجہ سے ناراض تھے۔"

Symbolbild India Hindu Migranten
تصویر: PUNIT PARANJPE/AFP/GettyImages

سادھنا لانس اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد چرچ میں خدمت انجام دے رہی ہوں۔ میں سب کچھ اپنی جمع کردہ رقم اور پینشن کے پیسوں سے کرتی ہوں۔ مذہب تبدیل کرانے کا الزام اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن قریب ہیں۔"

مسیحیوں پر حملوں کے واقعات

بھارت میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ مسیحیوں کا تاہم کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

گزشتہ ماہ ہی مسیحی مذہبی رہنماؤں نے بھارتی صدر کو ایک خط لکھ کر ان سے ملک میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مداخلت کی اپیل کی تھی۔ اس خط کی نقل مدھیہ پردیش کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور گورنر منگو بھائی پٹیل کو بھی پیش کی گئی تھی۔

مسیحی رہنماؤں نے اپنے اس خط میں لکھا تھا کہ وشو ہندو پریشد کے ارکان ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد مدھیہ پردیش کے جھابوا ضلع میں تمام مسیحی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

Indien Protest Christen gegen Anschläge auf Kirchen 05.02.2015
تصویر: picture-alliance/AP/M. Swarup

عالمی اداروں کی رپورٹیں

امریکا کے مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن نے سن 2021 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ذریعے ہندو قوم پرستانہ پالیسیوں کو فروغ دیے جانے کے نتیجے میں مذہبی آزادیوں کی منظم اور سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

مودی حکومت نے تاہم یہ رپورٹ جانبداری پر مبنی قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔

بھارت میں مسیحیوں کی ایک تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف مارچ2020  میں ایک مہینے کے دوران بھارت کی دس ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 27 واقعات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ یعنی چھ واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے تھے۔

جولائی 2021 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کم از کم 17 تنظیموں نے بھی امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ بھارت میں مسیحیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی زیادتیاں رکوانے کے لیے کارروائی کرے۔

آل انڈیا کیتھولک یونین کے رہنما جان دیال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرین کے خلاف ہی جھوٹی رپورٹیں درج کرا دی جاتی ہیں، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ دوسری طرف سنگھ پریوار کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو جی میں آئے کریں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید