1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پیغمبراسلام سے متعلق پوسٹ پر ہنگامہ، تین افراد ہلاک

جاوید اختر، نئی دہلی
12 اگست 2020

بھارت کے سیلیکون ویلی کے نام سے مشہور جنوبی شہر بنگلورو میں سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے متعلق ایک متنازعہ پوسٹ کے بعد رونما ہونے والے پرتشدد واقعات میں کم از کم تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3gpMP
Indien Unruhen in Neu Delhi
علامتی تصویرتصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/Str

منگل کی رات کو پیش آنے والے واقعات کے بعد حالات اب قابو میں بتائے جا رہے ہیں۔ پولیس نے پوسٹ کرنے والے سمیت تقریباً 110 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی بتائی جاتی ہے۔

بنگلورو سے صحافی سید تنویر احمد نے ڈی ڈبلیو اردو کو فون پر اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خود کو مقامی کانگریسی رکن اسمبلی سرینواس مورتی کا رشتہ دار بتانے والے نوین نامی ایک شخص نے فیس بک پر پیغمبر اسلام کے متعلق ایک ’انتہائی نازیبا‘ پوسٹ کی، جس کے بعد مسلمانوں میں زبردست غم و غصہ پھیل گیا۔ 

سید تنویر احمد نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے پیچھے مبینہ طور پر مقامی سیاست بھی کارفرما ہے کیوں کہ معاملے کو بگاڑنے میں جنتا دل سیکولر کے ایک رہنما  کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے تاہم کہا کہ رکن اسمبلی سرینواس مورتی مسلمانوں میں بھی کافی مقبول ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی جی ہلّی اور کے جی ہلّی نام کے جن دو علاقوں میں ہنگامہ ہوا ہے وہاں دلتوں اورمسلمانوں کی بڑی آبادی رہتی ہے۔ یہ بنگلورو کی سب سے بڑی کچی بستی بھی ہے۔


اس سوال کے جواب میں کہ اس واقعے کے بعد سب سے زیادہ گرفتاریاں مسلمانوں کی کیوں ہوئی ہیں؟ صحافی سید تنویر احمد کا کہنا تھا کہ تھانے پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی، اس لیے ظاہر ہے کہ زیادہ گرفتاریاں بھی انہیں کی ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ حالات اب پرسکون ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب کچھ اچانک ہوا۔

ریاست کرناٹک کے مولانا صغیر احمد نے بھی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امن برقرار رکھیں کیوں کہ پولیس نے پوسٹ کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے اور اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

اس دوران کرناٹک کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعلی بی ایس یدیورپّا نے آج ٹویٹ کر کے پولیس پر حملے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ تشدد پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ریاستی وزیر داخلہ باسوراج بومئی نے کہا کہ پولیس کو حالات پر قابو پانے کے لیے ہر طرح کی مناسب کارروائی کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔

مسلم دنيا کو درپيش مسائل، جاويد غامدی کے ساتھ خصوصی گفتگو

رکن اسمبلی سرینواس مورتی نے بھی ایک ویڈیو پیغام جاری کر کے مسلمانوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور اس معاملے میں کارروائی کی جائے گی۔ مورتی کا کہنا تھا، ”معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، ہم سب بھائی بھائی ہیں اور جو کوئی بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے، ہم لوگ یہ یقینی بنائیں گے کہ ان کو سزا ملے۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں۔"

قبل ازیں بنگلورو کے جوائنٹ پولیس کمشنر سندیپ پاٹل نے بتایا کہ اس واقعے کے سلسلے میں 110 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ کے بعد بڑی تعداد میں لوگ تھانے پہنچے اور ملزم کو فوراً گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔  پولیس کمشنر کا کہنا تھا کہ ہجوم اچانک بے قابو ہو گیا اور تھانے کے باہر کھڑی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور کچھ لوگ رکن اسمبلی کے گھر کے باہر بھی جمع ہو گئے اور وہاں بھی کچھ گاڑیوں کو جلایا گیا۔ پولیس کمشنر کا کہنا تھا کہ”تھانے پر چاروں طرف سے حملے کیے جا رہے تھے، ایسے میں پولیس کے پاس فائرنگ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا تھا۔"

خیال رہے کہ باغات کے شہر بنگلورو کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سیلیکون ویلی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں 67000 سے زیادہ آئی ٹی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ متعدد ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنیوں کے دفاتر بھی یہاں ہیں۔ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مجموعی آئی ٹی پروفیشنلز کا 35 فیصد یعنی تقریباً 25 لاکھ پروفیشنلز صرف بنگلورو میں کام کرتے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید