1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: وکاس دوبے کے انکاونٹر پر سوالیہ نشان

جاوید اختر، نئی دہلی
10 جولائی 2020

آٹھ پولیس اہلکاروں کے قتل کے ملزم وکاس دوبے کی آج مبینہ پولیس انکاونٹر میں ہلاکت نے حکومت، پولیس اور انتظامیہ کے رول پر ایک بار پھر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3f69W
UP-Polizistenmörder Vikas Dudey in MP verhaftet
تصویر: IANS

کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس مبینہ انکاونٹر کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بعض دھماکہ خیز انکشافات کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کے مقصد سے وکاس دوبے کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وکاس دوبے کو جس گاڑی میں مدھیہ پردیش سے اترپردیش لایا جارہا تھا وہ راستے میں پلٹ گئی۔ موقع کا فائد اٹھاکر وکاس نے ایک پولیس والے کی بندوق چھین کر بھاگنے کی کوشش کی جس کے بعد پولیس کی ’جوابی کارروائی‘ میں اسے گولی لگ گئی او راسپتال کے راستے میں اس کی موت ہوگئی۔ خیال رہے کہ مدھیہ پردیش اوراترپردیش دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

وکاس دوبے کو جمعرات کے روز مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں ایک مندر سے انتہائی ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اس نے خودسپردگی کی تھی یا واقعی پولیس نے اسے پکڑا تھا۔ آج اسے کانپور شہر لایا جارہا تھا، جہاں اس نے آٹھ پولیس اہلکاروں کا قتل کیا تھا۔

Indien Kanpur Angriff auf Polizisten
تصویر: picture-alliance/AP Photo

گوکہ پولیس اسے انکاونٹر بتارہی ہے لیکن اس مبینہ انکاونٹر پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مثلا ً یہ کہ جب اسے پکڑا گیا تھا اس وقت سے اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی، پھر اچانک وہ پولیس کی ایک پوری ٹیم کے درمیان بندوق چھین کر بھاگنے کی کوشش کیوں کرے گا۔ دوسری بات یہ کہ پولیس نے اسے انتہائی خطرناک مجرم قرار دیا تھا لیکن اسے بغیر ہتھکڑی لگائے کیوں لارہی تھی؟ یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ اترپردیش پولیس نے اسے کانپور لانے کے لیے قانونی طورپر ٹرانزٹ ریمانڈ کیوں نہیں لیا تھا؟ ان سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وکاس دراصل پولیس، مافیا اور سیاست دانوں کی ملی بھگت والے جرائم کے نیٹ ورک کا ایک بڑا گواہ تھا اور قانونی کارروائی کے تحت اس سے اس نیٹ ورک کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی تھی لیکن اب اس کی موت کے بعد یہ تمام راز ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ وکاس دوبے کے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتو ں کے رہنماوں سے قریبی تعلقات تھے۔

دراصل اترپردیش حکومت کے رول پر اسی وقت سوال اٹھنے لگے تھے جب پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد وکاس دوبے فرار ہوگیا تھا اور حکومت نے کسی قانونی کارروائی کے بغیر اس کے گھر کو منہدم اور وہاں رکھی گئی کئی گاڑیوں کو تباہ کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے وکیل اے رحمان  نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ”اس سے قطع نظر کہ ملک کا کوئی قانون پولیس کو ایسی کسی بھی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا، اس توڑ پھوڑ کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ وہاں موجود ثبوت و شواہد ضائع کردیے جائیں۔ حالانکہ پولیس نے انہدامی کارروائی کے دو روز بعد ملبے سے دیسی بم اور کارتوس وغیرہ برآمد کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن انہدامی کارروائی کے بعد وہاں سے’برآمد شدہ‘کسی بھی شئے کو قانون شہادت کی روشنی میں دنیا کی کوئی عدالت بطور وجہ ثبوت قبول نہیں کرے گی۔“


بھارت میں مبینہ انکاونٹر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پولیس بعض اوقات ثبوتوں کو ہمیشہ کے لیے ضائع کرنے کی خاطر ایسا کرتی ہے اور بعض اوقات جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ ملزم کے خلاف اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسے بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تب بھی وہ انکاونٹر کا سہارا لیتی ہے۔

مدھیہ پردیش پولیس نے مسلم طلبہ کی ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے آٹھ سابق کارکنوں کو 31 اکتوبر 2016 کو ایک انکاونٹر میں ہلاک کردیا تھا۔ پولیس نے انکاونٹر کے بعد دعوی کیا تھا کہ یہ آٹھوں ملزم بھوپال جیل توڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی بعض حلقوں سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولیس کے پاس ان ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حالانکہ بعد میں جسٹس جے کے جین کمیٹی نے اپنی انکوائری میں پولیس اہلکاروں کو کلین چٹ د ے دی تھی۔

گزشتہ برس دسمبرمیں حیدرآباد میں ایک خاتون کی اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے جرم میں گرفتار چار ملزمین بھی مبینہ پولیس’انکاونٹر‘میں مارے گئے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جب جرم کی دوبارہ منظر کشی کے لیے ان لوگوں کو جائے واردات پر لے جایا گیا تو انہوں نے ایک پولیس والے کی بندوق چھین کر بھاگنے کی کوشش کی اورپولیس کی ’جوابی کارروائی‘ میں مارے گئے۔

مبینہ انکاونٹر کے لیے اترپردیش سب سے زیادہ بدنام ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت کے آنے کے بعد انکاونٹر کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ انہو ں نے اقتدار سنبھالتے  ہی ’مجرموں کو ٹھونک دینے‘ اعلان کیا تھا۔ ان کے اس اعلان کی خاصی نکتہ چینی بھی ہوئی تھی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اترپردیش میں یوگی حکومت میں پچھلے ڈھائی برس کے دوران اب تک ساڑھے تین ہزار سے زیادہ انکاونٹر ہوچکے ہیں جن میں 73 مجرموں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اس دوران چار پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔

Indien Kanpur Angriff auf Polizisten
تصویر: picture-alliance/AP Photo

قومی انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2017-18میں ملک بھر میں انکاونٹر کے 155معاملات درج ہوئے تھے جن میں سب سے زیادہ 44 معاملات اترپردیش میں درج ہوئے تھے۔

اترپردیش کے سابق اعلی پولیس افسر وی این رائے کا کہنا ہے کہ ’فرضی انکاونٹر ایک سنگین معاملہ ہے۔ تمام انکاونٹرس میں پولیس نے ایسے لوگوں کوبھی مارا ہے جو کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہے۔ آخر ایسے لوگوں کو پولیس کیسے مجرم قرار دے سکتی ہے۔“

دریں اثنا اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو اور مایاوتی، کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ، مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی کمل ناتھ سمیت متعدد سیاسی رہنماوں نے وکاس دوبے کے مبینہ انکاونٹر کی اعلی سطحی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔