1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: نئے زرعی قوانین کسانوں کی کامیابی یا بربادی  

جاوید اختر، نئی دہلی
22 ستمبر 2020

بھارت میں بی جے پی حکومت کی طرف سے متنازعہ زرعی قوانین پارلیمان سے’منظور‘ کرانے کے بعد سے ملک میں ہنگامہ برپا ہے حالانکہ وزیر اعظم مودی ان قوانین کو کسانوں کی تاریخی کامیابی بتارہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3iqD7
Indien | Zunehmende Abwehrkräfte begrenzen das Ackerland an der Grenze zu Pakistan
تصویر: Reuters/A. Sharma

ان قوانین کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا سے منظور کرانے کے دوران اپوزیشن اراکین نے زبردست احتجاج اور ہنگامہ کیا، جس کے نتیجے میں آٹھ راکین پارلیمان کو ایک ہفتے کے لیے معطل کردیا گیا۔ راجیہ سبھاکے چیئرمین کے اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے منگل کے روز سے ایوان کا بائیکاٹ کردیا ہے۔

استعفی

حکومت کی حلیف جماعت شرومنی اکالی دل سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر ہرسمرت کور نے ان قوانین کو کسان مخالف بتاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے اور کسانوں کی تقریباً 300 تنظیموں نے 25 ستمبر کو ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ لیکن حکومت ان زرعی قوانین کے فائدے اور خوبیاں گنوانے میں مصروف ہے۔

حکومت کی کامیابی

حکومت کی دلیل ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی پیداوار کو حکومت کے زیر انتظام منڈیوں میں فروخت کرنے کی  مجبوری سے آزاد ہوجائیں گے۔ وہ کسی بھی بڑے کاروباری شخص کے ساتھ معاہدے کرسکیں گے اور اپنی پیداوار کو کسی بھی تاجر یا کارپوریٹ کمپنی کو اور ملک میں کہیں بھی فروخت کر سکیں گے، جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔

کسانوں کا ردعمل

کسان رہنما تاہم اسے جھوٹ اور فریب قرار دے رہے ہیں۔ آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردوکے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کی مودی حکومت کسانوں کومسلسل دھوکے دے رہی ہے،'' اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر،جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے کسان مخالف بل منظور کرالیے ہیں۔‘‘ اتول کمار انجان کا کہنا تھا کہ حکومت کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے نام پر بھی دھوکے دے رہی ہے۔کیوں کہ اب کسانوں کی پیداوار منڈیوں میں فروخت ہونے کے بجائے اونے پونے داموں پربڑے کاروباری خریدلیں گے۔

Bildergalerie Indien Nahrung
تصویر: DW/P. Mani Tewari

 ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹنگ کمیٹی قانون

بھارت میں تقریباً 55برس پرانے ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹنگ کمیٹی قانون کی رو سے کسان اپنی پیداوار کو ملک کی 7000 سے زائد سرکاری منڈیوں میں کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں بڑے ادارہ جاتی خریداروں کے استحصال سے بچانا ہے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ کمیشن ایجنٹوں کا خاتمہ ہوجانے سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوگا۔ تاہم زرعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں کیوں کہ جہاں بھی اس طرح کا تجربہ کیا گیا ہے، وہاں کسانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔

نقصان کیسے؟

ہند کسان نیوز چینل کے چیف ایڈیٹر ہرویر سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اس طرح کا نظم صرف بہار میں ہے۔ لیکن اس نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مکئی کے 1765روپے فی کوئنٹل کم از کم سرکاری قیمت کے مقابلے میں بہار کے کسانوں کو مکئی کی اپنی فصل 900 روپے فی کوئنٹل فروخت کرنی پڑی۔"  ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ اگر بھارت میں اپنی مصنوعات خود فروخت کرنے کا یہ نظام مثالی ہوتا تو بہار کے کسان ہر سال برباد نہیں ہوتے۔

Reisanbau in Indien
تصویر: picture-alliance/dpa

کسانوں میں غربت

بھارت میں تقریباً 85 فیصد کسان کافی غریب ہیں۔ ان کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور ان کے لیے اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے سلسلے میں بڑے خریداروں سے معاملہ طے کرنا مشکل ہوگا۔  اس کے علاوہ موجودہ نظام میں کمیشن ایجنٹ مشکل گھڑی میں کسانوں کی مالی مدد کرتے ہیں تاہم بڑی کمپنیوں سے اس طرح کسی انسانی ہمدردی کی امید رکھنا فضول ہے۔

بھارت میں حکومت زرعی پیداوار کی ہر سال ایک کم از کم قیمت (ایم ایس پی) طے کرتی ہے، جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے۔  مودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایم ایس پی ختم نہیں کرے گی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے زرعی قوانین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ کسانوں کی طرف سے ان قوانین کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔

ماہرین کی رائے

زرعی امور کے ماہر ہرویر سنگھ کہتے ہیں، ”ایم ایس پی لفظ کا اس قانون میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ میری پچھلے دنوں وزیر زراعت سے بات چیت ہوئی تھی، ان کا کہنا تھاکہ ایم ایس پی کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ ایک اسکیم ہے۔" ہرویر سنگھ کے مطابق چونکہ یہ ایک اسکیم ہے اس لیے   حکومت جب چاہے کسی اسکیم کو صرف دو سطری حکم سے ختم کرسکتی ہے۔

DW Videostill Punjab's burning fields
تصویر: DW

130کروڑ آبادی والے بھارت میں تقریباً پچاس فیصد افراد زراعت پر منحصر ہیں۔ ہرویرسنگھ کا کہنا تھا کہ لوگ فی الحال زراعت کو اپنا کام سمجھ کر کرتے ہیں لیکن جب بڑی کمپنیاں اس کاروبار سے وابستہ ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی حیثیت یومیہ مزدور جیسی ہوجائے گی۔ یہ بھارت کے سوشل سکیورٹی اور فوڈ سکیورٹی دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہوگا۔

تاریخی اقدام

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی زراعت سے  متعلق ان قوانین کو تاریخی حیثیت کا حامل قراردے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے بھی انہوں نے بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی(نوٹ بندی)، اشیاء اور جی ایس ٹی اور پھر کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کو تاریخی بتاتے ہوئے، ان کے بیشمار فائدے گنوائے تھے لیکن ان سب کا حشر ہمارے سامنے ہے۔

مودی حکومت نے ان زرعی قوانین کوگزشتہ جون میں آرڈی ننس کی شکل میں نافذ کردیا تھا لیکن اب انہیں باضابطہ قانونی شکل دینا چاہتی ہے۔ پارلیمان سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد یہ باضابطہ قانون کی شکل لے لیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں