1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں عدالتی نظام کیا واقعی امیروں کاغلام ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
8 مئی 2020

حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس دیپک گپتا کے اس بیان کے بعد کہ'بھارت میں قانون اورانصاف چند امیر اور طاقت ور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے‘،  عدالتی غیر جانبداری پر بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3bvmQ
Indien Oberster Gerichtshof in Neu-Delhi
تصویر: Imago/Hindustan Times/S. Mehta

بھارتی عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی طرف انگلی اٹھانا یوں تو کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا جب اس طرح کی باتیں عدالتی نظام سے تعلق رکھنے والے کسی انتہائی اہم شخصیت کی طرف سے آئے۔

بھارتی عدلیہ سے چارعشروں سے بھی زیادہ عرصے سے وابستہ اور مختلف اہم عہدوں سمیت سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کئی اہم فیصلوں کے لیے معروف جسٹس دیپک گپتا نے چھ مئی کو اپنی 'ورچوول‘ الوداعی تقریب کا استعمال بھارت کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور ان کو دور کرنے کے طریقہ کار پر بحث شروع کرنے کے لیے کیا۔

جسٹس گپتا کے مطابق بھارت کا قانون اور عدالتی نظام دولت مند اور طاقتور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے۔ کوئی امیر او رطاقتور شخص اگر سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے تو کسی نہ کسی طرح سے اپنے کیس کی تیزی سے سماعت کا حکم حاصل کراہی لیتا ہے اور اگر وہ ضمانت پر ہوتا ہے تو سماعت کو ٹالتا رہتا ہے۔ جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ اس کا خمیازہ غریب مدعاعلیہ کو اٹھانا پڑتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ عدالت پر دباو ڈلوا سکے۔ اس طرح اس کے مقدمے کی سماعت ٹلتی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر اورغریب کی اس لڑائی میں عدالت کے ترازو کے پلڑوں کا جھکاؤ ہمیشہ محروموں کی جانب ہونا چاہیے تبھی انصاف کے پلڑے برابر ہوسکیں گے۔

جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت اور دورمیں ہرجج کو یہ ضرورپتہ ہونا چاہیے کہ اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات سے انجان بن کر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا ”موجودہ دور میں جج 'آئیوری ٹاور‘ میں نہیں رہ سکتے۔" انہوں نے وکلاء کو مشورہ دیا کہ عدالتوں میں مقدمات پر بحث کرتے وقت اپنے سیاسی یا دیگر تعلقات سے بالاتر ہوکر قانون کے مطابق کیس کی پیروی کرنی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گپتا کے ان خیالات کو کافی سراہا جارہا ہے۔  نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ہمارے قوانین میں ایک 'کلاس کیریکٹر‘ ہے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ وہ امیروں کی طرف داری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا”مثال کے طورپراس ضابطہ کو ہی لے لیجیے جس کے  تحت ایک ملزم کو ضمانت کے طور پر  'شیورٹی بانڈ‘  بھرنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک ہزار روپے کا بانڈ لانا ہوتا ہے تو کبھی ایک لاکھ روپے کا۔ ایک غریب آدمی بانڈ کیسے لائے گا؟"

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے جسٹس گپتا کی تعریف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ ایسے جج تھے جنہوں نے آئین اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے عہد کو نبھایا اور کسی جانبداری اور کسی خوف کے بغیر انصاف کیا۔


خیال رہے کہ ججوں کی سبکدوشی کے بعد ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک باوقار تقریب منعقد کی جاتی ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی جج کو 'ورچوؤل وداعی‘ دی گئی۔  جب جسٹس گپتا سے پوچھا گیا کہ انہیں یہ سب کیسا محسوس ہوا تو ان کا کہنا تھا”اگر کووڈ انیس کا معاملہ نہ ہو تب بھی ہمیں ٹیکنالوجی کا بہتراستعمال کرنا چاہیے لیکن ہم نے اب تک ایسا نہیں کیا ہے۔  ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بالخصوص مقدمات کی سماعت باضابطہ شروع ہونے سے پہلے کے مرحلے میں بعض کیسزمیں یہ طریقہ کار کافی بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پرزیر سماعت قیدیوں کی ریمانڈ کے سلسلے میں ورچوول سماعت ہوسکتی ہے۔  ویڈیو کانفرنسنگ سے ججوں کو بھی فائدہ ہوگا اور بعض وکلاء کی غیر ضروری ڈرامے بازی بھی کم ہوجائے گی۔

جسٹس گپتا کے خیال میں عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنے کا رجحان صرف بھارت تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر کسی کے لیے عدالت کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔ عدالت سے انصاف طلب کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

ماہر قانون اور نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفی کا کہنا ہے کہ یہ سوال بہر حال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ جسٹس گپتا جیسے ججوں کی باتوں کے بعد بھارت کے عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔ پروفیسر مصطفی کے مطابق اس طرح کی باتیں کہنے کے ساتھ ساتھ بہتر یہ ہوگا کہ ملک کے جج اپنے فیصلوں میں بھی اس طرح کے ریمارکس درج کریں تا کہ یہ باضابطہ ریکارڈ پر آسکیں۔

 انہوں نے اس حوالے سے یاد دلایا کہ حال ہی میں کس طرح مہاجر مزدوروں کے لیے راحت کا مطالبہ کرنے والی عرضی کو کئی دنوں تک سپریم کورٹ میں سماعت کی تاریخ ہی نہیں ملی۔ جبکہ اس دوران لاکھوں افراد پریشان ہوتے رہے۔  مہاجر مزدورں کی راحت کے لیے 15 اپریل کو دائر کی گئی عرضی پر پہلی سماعت 27 اپریل کو ہوسکی۔  دوسری طرف معروف ٹی وی نیوز اینکر ارنب گوسوامی کی عرضی رات آٹھ بج کر سات منٹ پر دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے اس پر اگلے ہی روز صبح ساڑھے دس بجے سماعت کرنے کا وقت دے دیا۔

بھارت ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے، اسدالدین اویسی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید