1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سیاست کے مذہب سے گٹھ جوڑ کا خاتمہ بظاہر ناممکن

جاوید اختر، نئی دہلی20 نومبر 2014

بھارت میں مبینہ دھرم گرو رام پال کی گرفتاری اور جیل بھیجے جانے کے ساتھ پچھلے دو ہفتوں سے ملکی ریاست ہریانہ میں جاری تنازعہ تو بظاہر ختم ہو گیا ہے لیکن اس ملک میں سیاست اورمذہب کے مابین گٹھ جوڑ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

https://p.dw.com/p/1DqQx
گرو رام پالتصویر: Reuters

ایک ارب سے زائد کی آبادی والے بھارت میں دھرم گرو کہلانے والے خود ساختہ مذہبی رہنماؤں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان کے عقیدت مند صرف غریب اور کم پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے سیاستدان، فلمی شخصیات، معروف کھلاڑی اور بیوروکریٹ بھی ہوتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں بھی ان کے ایسے عقیدت مندوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔

Bildergalerie zu Rampal Maharaj
گرو رام پال کے حامی پولیس پر پتھراؤ کرتے ہوئےتصویر: Reuters

دھریندر برہمچاری، چندرا سوامی، ستیہ سائی بابا، آسا رام، بابا رام دیو، نرمل بابا، بابا رام رحیم جیسے دھرم گرووں کے عقیدت مندوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں ہے۔ آہنی خاتون کے نام سے مشہور مقتولہ وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی دھریندر برہمچاری کے عقیدت مندوں میں شامل تھیں۔ سابق وزیر اعظم نرسیما راؤ کے چندرا سوامی سے قریبی تعلقات تھے۔ چندرا سوامی ہتھیاروں کے بین الاقوامی تاجر عدنان خشوگی، برونائی کے سلطان، بحرین کے حکمران اور آنجہانی برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر سے قریبی تعلقات کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔

بڑے لوگوں کو دیکھ کر سادہ لوح عوام بھی ان دھرم گرووں کے مرید ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف الیکشن میں ووٹوں کی خواہش سیاستدانوں کو ان دھرم گرووں کے دروازے پر پہنچا دیتی ہے جبکہ دھرم گرو اس کے بدلے میں اپنے لیے طرح طرح کی مراعات طلب کرتے ہیں۔ یہ چکر اسی طرح چلتا رہا ہے۔

ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے نظریہ ساز گوبند آچاریہ کا کہنا ہے، ’’سیاسی جماعتیں اور دھرم گرو دراصل ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پارٹیوں کو عوام کے ووٹ چاہیئں جس میں یہ دھرم گرو مددگار ثابت ہوتے ہیں جبکہ انہیں سرکاری سرپرستی اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ یہ سب کچھ موقع پرستی ہے اور اس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔‘‘

Swami Nityananda
بھارت میں آج تک ایسے کئی گرو گرفتار کیے جا چکے ہیںتصویر: AFP/GettyImages/M. Kiran

سیاسی تجزیہ نگار اور ہندی روزنامہ جن ستا کے ایڈیٹر اوم تھانوی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم دھرم اور سیاست کو الگ رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ یہاں مذہب کی بنیاد پر سیاست ہو رہی ہے اور باقاعدہ مذہبی بنیادوں پر صف بندی ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس طرح کے (رام پال جیسے) واقعات ہونے دیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا ہے، ’’بی جے پی نے تو مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا اور الیکشن جیتنے کے بعد اس کے تیس ممبران اسمبلی گرو رام رحیم کے آشرم میں باضابطہ طور پر شکریہ ادا کرنے گئے تھے اور اس نے دیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں کے ووٹوں کے لیے رام پال کا بھی تعاون لیا تھا۔‘‘
بیشتر نام نہاد دھرم گرووں پر عصمت دری، جنسی تشدد، غیرقانونی زمینوں کے سودوں اور قتل تک کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی جیل بھی جا چکے ہیں اورکئی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ رام پال کے تنازعے کے سلسلے میں ہریانہ کی بی جے پی حکومت کے بارے میں اوم تھانوی کا کہنا تھا، ’’عوام کے ساتھ دھوکا کیا گیا، عدالتی نظام کے ساتھ دھوکا کیا گیا، جمہوریت کے ساتھ دھوکا کیا گیا اور جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کے ساتھ بھی دھوکا کیا گیا۔‘‘
دریں اثناء پولیس نے رام پال پر ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے رام پال کو 28 نومبر تک کے لیے اور ان کے 70 ساتھیوں کو تین دسمبر تک کے لیے عدالتی تحویل میں دے دیا ہے۔ تاہم یہ عقدہ اب بھی حل طلب ہے کہ ریاستی محکمہ آبپاشی کا ایک جونیئر انجینئر چند برسوں میں سنت رام پال اور اربو ں روپے کی املاک کا مالک کیسے بنا؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید