1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں تعینات دو بنگلہ دیشی سفارت کار برطرف

26 اگست 2024

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی کے درمیان یہ تازہ اقدام کیا گیا ہے۔ اس سے قبل نئی دہلی نے ڈھاکہ میں اپنے ہائی کمیشن سے 'غیر ضروری' عملے اور سفارت کاروں واپس بلا لیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4juGc
محمد یونس
 چند روز قبل ہی محمد یونس کی زیرقیادت نگراں حکومت نے شیخ حسینہ اور ان کی حکومت کے کئی سابق وزرا اور ارکان پارلیمان کے ریڈ (سفارتی) پاسپورٹ منسوخ کر دیے تھےتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

ڈھاکہ کی نگراں حکومت کے ایک حکم کے مطابق بھارتی ہائی کمیشن میں خدمات انجام دینے والے دو بنگلہ دیشی سفارت کاروں کو ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ حکم 17 اگست سے نافذ العمل ہوا۔

بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین سرحدی کشیدگی کا آغاز کیوں؟

بھارت کے ایک معروف میڈيا ادارے انڈيا ٹوڈے نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ نئی دہلی میں واقع بنگلہ دیشی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے شعبان محمود، فرسٹ سیکرٹری (پریس) سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا معاہدہ ختم ہونے سے پہلے ہی اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔

بنگلہ دیش: سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ

ادھر کولکاتہ میں بنگلہ دیشی قونصل خانے میں فرسٹ سکریٹری (پریس) کے عہدے پر فائز رنجن سین بھی ہفتے کے روز اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔ سین سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ اپنا عہدہ فوری طور پر چھوڑ دیں۔

بنگلہ دیش: سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے بینک کھاتے بحال کرنے کا حکم

ان دونوں سفیروں کو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے تعینات کیا تھا، جس میں سے رنجن سین کو مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ انہیں اسی عہدے پر برقرار ہنے کو کہا گیا تھا۔ البتہ اطلاعات ہیں کہ ان دونوں کے ڈھاکہ واپس جانے میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

نئی دہلی اور ڈھاکہ کے نازک رشتے

بھارتی ذرائع ابلاغ میں لکھا گیا ہے کہ ڈھاکہ کی جانب سے اس طرح کے سخت اقدام سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان رشتے کافی نازک موڑ پر ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں بھارت نے بھی اپنے پڑوسی ملک میں تشدد کے خدشات کے پیش نظر ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے "غیر ضروری" عملے اور سفارت کاروں کے اہل خانہ کو واپس بلا لیا تھا۔

شیخ حسینہ
شیخ حسینہ کے سفارتی پاسپورٹ کی منسوخی کا مطلب یہ بھی کہ ان کے پاس اب ویزا کی بھی سہولت ختم ہو چکی ہے اور اس صورتحال میں اگر ان کی حوالگی کا مطالبہ ہوا تو ان کے لیے حالات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیںتصویر: Peerapon Boonyakiat/SOPA Images/IMAGO

واضح رہے کہ شیخ حسینہ طلبہ کی قیادت میں ہونے والے بڑے پیمانے کے پر تشدد مظاہروں کے بعد وزارت عظمی کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد پانچ اگست کو ملک سے فرار ہو کر بھارت آ گئی تھیں اور تب سے یہیں پر مقیم ہیں۔

امریکہ شیخ حسینہ کو ہٹانے میں ملوث نہیں، وائٹ ہاؤس

 چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ محمد یونس کی زیرقیادت نگراں حکومت نے شیخ حسینہ اور ان کی حکومت کے کئی سابق وزرا اور ارکان پارلیمان کے ریڈ (سفارتی) پاسپورٹ منسوخ کر دیے تھے۔

بنگلہ دیش کے معروف میڈيا ادارے ڈیلی اسٹار نے سرکاری ذرائع کے حوالے لکھا ہے کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف ملک میں قتل کے 42 کیسز سمیت 51 مقدمات دائر کیے گئے ہیں اور وہ ملک کی عدلیہ کو مطلوب ہیں۔

بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں کے سبب سرحد پر کشیدگی

بھارتی ذرائع ابلاغ میں مبصرین کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیخ حسینہ کے سفارتی پاسپورٹ کی منسوخی کا مطلب یہ بھی کہ ان کے پاس اب ویزا کی بھی سہولت ختم ہو چکی ہے اور اس صورتحال میں اگر ان کی حوالگی کا مطالبہ ہوا تو ان کے لیے حالات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حوالگی کا بھی ایک معاہدہ ہے اور اگر وہ بھارت میں مزید وقت گزارتی ہیں اور ڈھاکہ ان کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے، تو اس قانونی فریم ورک کے تحت وہ خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

اگر ایسا ہوتا ہے، تو یہ نئی دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان مزید پیچیدہ تعلقات کو جنم دے گا، جو پہلے ہی سے ہی کافی نازک ہیں۔

ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ شیخ حسینہ کا مستقبل کے بارے میں اپنا منصوبہ کیا ہے۔ وہ بھارت میں ہی رہیں گی یا پھر دوسرے ملک میں سیاسی پناہ کی متلاشی ہیں۔ انہوں نے اس پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم امریکہ میں مقیم ان کے بیٹے سجیب واجد جوائے نے اشارہ کیا ہے کہ وہ ایک طویل مدت کے لیے بھارت میں رہ سکتی ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

بنگلہ دیش میں ہندو کمیونٹی کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟