1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، مظاہروں کا دائرہ وسیع لیکن حکومت اپنے فیصلے پر قائم

21 جنوری 2020

بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا دائرہ مزید کئی شہروں تک پھیل چکا ہے لیکن حکومت نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لینے والی نہیں۔

https://p.dw.com/p/3WXcr
Indien Kalkutta | Hunderte Theateraktivisten bei Demonstration gegen NRC und CAA
تصویر: DW/S. Bandopadhyay

ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں منعقدہ ایک ریلی سے وزیر داخلہ امیت شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ بل پیش کیا تھا، جسے پارلیمان نے منظور کیا اور اب اسے واپس نہیں لیا جا سکتا،’’میں پھر سے دوبارہ کہتا ہوں کہ حکومت شہریت ترمیمی قانون پر پیچھے نہیں ہٹنے والی، جو لوگ مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں وہ چاہیں تو ایسا کرتے رہیں۔‘‘

اس موقع پر امیت شاہ نے حزب اختلاف پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہ ووٹ بینک کی سیاست کے لیے اس معاملے پر لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا،’’شہریت ترمیمی قانون میں کسی کی شہریت لینے کی بات نہیں کہی گئی ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس جیسی جماعتیں اس کے خلاف جھوٹا پرپیگنڈہ کر رہی ہیں۔‘‘

Indien Protest gegen CAA in West Bengal
تصویر: DW/P. Samanta

امیت شاہ نے الزام عائد کیا کہ اس سے پہلے کی حکومتوں میں’’پاکستانی شدت پسند بھارت آ کر دھماکے کیا کرتے تھے اور منموہن سنگھ کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی تھی لیکن مودی نے سرجیکل اسٹرائيک کر کے اس کا سخت جواب دیا اور تبھی سے سب بند ہوگیا ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک حلیف جماعت اکالی دل نے اسی قانون پر اختلافات کے سبب دہلی کے ریاستی انتخابات بی جے پی کے ساتھ نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اکالی دل کا کہنا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون پر بی جے کے موقف کی حامی نہیں ہے اور اس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے والی۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ فروری کے اوائل میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں وہ اکالی دل کے ساتھ اتحاد کرےگی۔  

امیت شاہ نے لکھنؤ کے جس مقام پر ریلی سے خطاب کیا اسی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی تاریخی مقام گھنٹہ گھر کے پاس بڑی تعداد میں مقامی خواتین شہریت سے متعلق اس نئے قانون کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ جمعے کو درجن بھر خواتین نے اس کی ابتدا کی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کئی ہزار خواتین جمع ہو گئیں۔

Indien Protest von Muslima
تصویر: DW/Rafat Islam

پولیس نے اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے سخت کارروائی کی اور مظاہرین کو ہٹانے کے لیے اس مقام پر پانی تک ڈال دیا تاہم دھرنا اب بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں پولیس نے درجنوں خواتین اور مردوں کے خلاف فساد برپا کرنے اور غیر قانونی اجتماعات جیسے کئی مقدمات درج کیے ہیں۔ جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گيا ہے اس میں معروف شاعر منور رانا کی دوبیٹیاں سمیّہ اور فوزیہ رانا کے نام بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل مظاہرین کے کھانے پینے کی اشیاء اور ان کے کمبل لوٹنے کا الزام پولیس پر عائد کیا گيا تھا لیکن پولیس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا،’’افواہیں نہ پھیلائی جائیں، پولیس نے اصول و ضوابط کے تحت کمبلوں کو ضبط کیا ہے۔‘‘ اس سے پہلے بھی لکھنؤ میں ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے بعد پولیس نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا تھا جبکہ پولیس کی فائرنگ میں اب تک اکیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بھارتی حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون منظور کیا ہے اس میں پڑوسی ممالک سے آنے والے تمام تارکین وطن کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے تاہم مسلمان اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے خلاف  ملک کے مختلف شہروں میں گزشتہ ایک ماہ سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ دارالحکومت نئی دہلی کے شاہین باغ کی ہی طرح  اب لکھنؤ، پٹنہ اور مونگیر جیسے تقریباً چالیس مقامات پر دھرنے شروع ہوگئے ہیں، جس میں شرکت کرنے والی غالب اکثریت خواتین کی ہے۔ 

نیشنل رجسٹریشن بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسہ جاری

زی ص / ع ا ( خبر رساں ادارے)