1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مسلمانوں کی آمدن غیر مسلموں سے کم کیوں ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
16 ستمبر 2022

سماجی امور کے حوالے سے سرگرم بین الاقوامی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی ماہانہ اوسط آمدن غیر مسلموں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ جس کا سبب لیبر مارکیٹ میں ان کے ساتھ روا تفریقی سلوک ہے۔

https://p.dw.com/p/4GxkK
Durga Puja, Kolkata
تصویر: Subrata Goswami/DW

آکسفیم انڈیا نے گزشتہ روز "انڈیا ڈسکریمینیشن رپورٹ 2022 "جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف سماجی شعبوں میں بھارتی مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں تفریق آمیز سلوک کا شکار ہیں۔

رپورٹ میں مختلف سماجی امور مثلاً ملازمت، رہائش اور زراعت کے حوالے سے 15 برس اور اس سے زیادہ عمر کے بھارت کے مسلمانوں اورغیر مسلموں کیصورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سن 2019-20 میں بھارت کے شہری علاقوں میں مستقل ملازمتوں میں غیر مسلموں کی تعداد 23.3 فیصد تھی لیکن مسلمانوں کی تعداد صرف 15.6 فیصد تھی۔

بھارتی ریاست گجرات میں نو ہلاکتوں کے بعد فوج کا گشت

رپورٹ میں کہا گیا ہے، "شہری آبادیوں میں مسلمانوں کو روزگار کے معاملے میں 68 فیصد تفریقی سلوک کا شکار ہونا پڑا۔ تفریق کی وجہ سے سال 2019-20میں اجرت پر کام کرنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تنخواہوں میں 70فیصد کا فرق تھا۔

رپورٹ کے مطابق کووڈ انیس وبا کی پہلی سہ ماہی کے دوران دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی بے روزگاری میں سب سے زیادہ 17 فیصد کا اضافہ ہوا۔" کووڈ کے دوران تنخواہ یافتہ ملازمین میں مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان کی تعداد 11.8فیصد سے بڑھ کر  40.9 فیصد ہوگئی۔ جبکہ متاثر ہونے والے عام غیر مسلموں کی تعداد 28.1 فیصد رہی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آمدن میں ریکارڈ 13 فیصد کی گراوٹ آئی جب کہ دیگر فرقوں میں یہ تعداد 9 فیصد رہی۔

ماہر سماجیات ڈاکٹر امیتابھ کنڈو کا کہنا ہے کہ ڈسکریمنیشن واقعی ایک مسئلہ ہے اور اس میں جتنی کمی کی ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں ہوئی ہے
ماہر سماجیات ڈاکٹر امیتابھ کنڈو کا کہنا ہے کہ ڈسکریمنیشن واقعی ایک مسئلہ ہے اور اس میں جتنی کمی کی ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں ہوئی ہےتصویر: Javed Akhtar/DW

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

 رپورٹ کو تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر امیتابھ کنڈو کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری میں سائنسی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

ورلڈ ریسورس سینٹر کے سینیئر فیلو امیتابھ کنڈو نے ڈی ڈبلیو اردو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی تیاری میں صرف سرکاری اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا ہے۔ "ہم نے پایا کہ تفریق یا ڈسکریمنیشن واقعی ایک مسئلہ ہے اور اس میں جتنی کمی کی ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں ہوئی ہے۔

بھارت: اب مریضوں کے علاج میں بھی مذہبی تعصب

انہوں نے کہا کہ اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں میں اسکل کا فرق زیادہ ہو تو ظاہر ہے کہ لیبر مارکیٹ میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں پیچھے رہیں گے لیکن اگر دونوں کے اسکل میں کوئی زیادہ فرق نہ ہو اور لیبر مارکیٹ میں دونوں کی تعداد میں 30 فیصد کا فرق ہو تو اسے تفریق یا ڈسکریمینیشن مانا جائے گا۔

خود روزگار کے شعبے میں غیرمسلموں کی ماہانہ اوسط آمدن 15878 روپے ہے جب کہ مسلمانوں کی اوسط ماہانہ آمدن 11421روپے ہے
خود روزگار کے شعبے میں غیرمسلموں کی ماہانہ اوسط آمدن 15878 روپے ہے جب کہ مسلمانوں کی اوسط ماہانہ آمدن 11421روپے ہے تصویر: Rouf Fida/DW

خود روزگار میں بھی تفریق

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہ والی ملازمت اور خود روزگار سے ہونے والی آمدنی  کے شعبے میں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مقابلے میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تنخواہ دار غیر مسلموں کی اوسطاً آمدن 20346روپے ماہانہ ہے جو کہ مسلمانوں کے مقابلے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق تنخواہ دار مسلمانوں کی اوسطاً ماہانہ آمدن 13672روپے ہے۔

بھارت: قلی کی پانچ نوکریاں اور سینکڑوں گریجویٹ امیدوار

بھارت میں بے روزگاری کی شرح میں ریکارڈ اضافہ

رپورٹ کے مطابق خود روزگار کے شعبے میں غیرمسلموں کی ماہانہ اوسط آمدن 15878 روپے ہے جب کہ مسلمانوں کی اوسط ماہانہ آمدن 11421روپے ہے حالانکہ خود روزگار کے معاملے میں مسلمانوں کی تعداد ہندووں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ غیر مسلم مسلمانوں کے مقابلے ایک تہائی زیادہ کماتے ہیں۔

اس صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟

امیتابھ کنڈو کا کہنا ہے کہ حکومت کی اپنی ذمہ داری یقینا ہے لیکن ساتھ ہی سول سوسائٹی اور مسلم کمیونٹی کو بھی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر آپ صرف حکومت پر چھوڑ دیں تو اسے بہتر بنانا ممکن نہیں ہوگا۔

کیا بھارت آبادی کے چیلنج سے نمٹ سکتا ہے؟

بیروزگاری ختم کرنے کا نادر نسخہ: گائے کا گوبر اور پیشاب بیچو

انہوں نے کہا، "اگر اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلے پانچ برسوں میں دس ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کا بھارت کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔"

آکسفیم کے سی ای او امیتابھ بیہار کہتے ہیں سماج پر تفریق یا ڈسکریمینیشن کے صرف سماجی اور اخلاقی مضمرات ہی نہیں پڑتے بلکہ اس کے اقتصادی مضمرات بھی ہوتے ہیں جس کے دیرپا منفی اثرات پڑتے ہیں۔