بھارت: مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ جاری
22 مئی 2020تازہ واقعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کا ہے، جنہیں گزشتہ روز دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔
بی اے فارسی آنرز فائنل ایئر کے طالب علم 24 سالہ آصف اقبال پر پولیس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ منعقد کرنے اور اپنی تقریر کے ذریعے لوگوں کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے۔ دہلی پولیس نے آصف اقبال کو 17مئی کو بھی گرفتار کیا تھا اور عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا لیکن جمعرات21 مئی کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے کے تحت الزامات لگا کر اپنی تحویل میں لے لیا۔
آصف اقبال سے پہلے بھی جامعہ ملیہ کے دیگر طلبہ میران حیدر اور صفورہ زرگر کو پولیس یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار کرچکی ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والی صفورہ چار ماہ کی حاملہ ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے حقوق کو نظر انداز کر کے انہیں بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں رکھا گیا ہے۔ ان کے علاوہ شرجیل امام، عمر خالد اور خالد سیفی جیسے نوجوانوں اور طلبہ کو بھی اس سیاہ قانون کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ طلبہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے۔
خیال رہے کہ یو اے پی اے یعنی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون ایک سیاہ قانون ہے جس کا استعمال حکومت نے داؤد ابراہیم اور پاکستان کے حافظ سعید جیسے مبینہ بھارت مخالف افراد کے خلاف کیا ہے۔ یہ قانون بنیادی طور پر بھارت کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کرنے والے افراد کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے لیکن ماہرین قانون کے مطابق اس قانون میں جو ابہام ہے اس کا فائدہ اٹھاکر حکومتیں اپنے مخالفین کو ’سبق سکھانے‘ کے لیے بھی اس کا استعمال کرتی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اس کے بے جا استعمال میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
حقوق انسانی کے علمبردار اورماہرین قانون نے حکومت کی نکتہ چینی کرنے والوں کے خلاف یو اے پی اے قانون کے استعمال کے رجحان کو ملک کی جمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے حقوق انسانی کی کارکن تیستا سیتلواڈ کا کہنا تھا کہ لاک ڈاون کے باوجود پولیس جو کررہی ہے وہ پولیس راج ہے۔ وہ اس لیے ایسا کررہی ہے کیوں کہ لوگ اس کے خلاف مظاہرے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔تیستا کا کہنا تھا”دہلی پولیس اور وزرات داخلہ اپنے ا س اقدام کے ذریعہ مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی تعلیم یافتہ قیادت کو سبق سکھانا چاہتی ہے، یہ انتہائی شرمناک ہے۔“
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن پولیس کے ان اقدامات کو دہلی فسادات کی سازش کی تفتیش کے بجائے ”تفتیش کی سازش“ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جولوگ تشدد سے متاثر ہوئے اور جن لوگوں نے آئین کی حفاظت کے لیے بہترین مثال پیش کی پولیس انہیں ہی نشانہ بنارہی ہے اور جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ حقوق انسانی کمیشن اپنی ذمہ داریاں کیوں ادا نہیں کر رہی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا نند کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں اور طلبہ کی گرفتاریاں بھی مہاراشٹر کے کوریگاؤں کیس کی طرح ہے۔ دہلی فسادات کے لیے جن لوگوں پر الزامات لگے تھے وہ آزادی سے گھوم رہے ہیں اور طلبہ کو جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا کا کہنا تھا کہ یہ سب منصوبہ بند طریقے سے اس لیے ہورہا ہے تاکہ طلبہ کا کیریئر تباہ کردیا جائے اور ایسے وقت ہورہا ہے جب عدالتیں پوری طرح سے کام نہیں کررہی ہیں۔
حقوق انسانی کی کارکن کویتا کرشنن کا کہنا تھا کہ پولیس یو اے پی اے قانون کا استعمال اس لیے کررہی ہے کیوں کہ عام قانون کے تحت ان طلبہ کو سلاخوں کے پیچھے رکھنا اس کے لیے مشکل تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی ادارے یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم نے اس ماہ کے اوائل میں اپنے ایک بیان میں ان گرفتاریو ں پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی حکومت ایسے نوجوانوں کو گرفتار کررہی ہے جنہوں نے احتجاج کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کیا۔ کمیشن نے مودی حکومت سے کہاہے کہ یہ وقت ایسے ضمیر کے قیدیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے رہا کرنے کا ہے۔