1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: صحافیوں پر دوہری مار

جاوید اختر، نئی دہلی
7 جولائی 2020

بھارت میں صحافیوں کوان دنوں دوہری مار جھیلنی پڑ رہی ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں ان کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں وہیں حکومتیں سچائی بیان کرنے کی جرأت پرا ن کے خلاف مقدمات درج کررہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3euOA
Kalkutta Journalisten Proteste
تصویر: DW/S. Bandopadhyay

 ان سب کے درمیان بھارت میں صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران کورونا سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ ایسے میں 37 سالہ صحافی ترون سسودیا کی خود کشی کے واقعے نے اس تلخ حقیقت کو شدت کے ساتھ اجاگر کردیا ہے کہ بھارت میں صحافی کن دشوار کن حالات میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے مجبور ہیں۔

ترون سسودیا نے پیر چھ جولائی کو دہلی کے سب سے بڑے اسپتال آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(ایمس) کی چوتھی منزل  سے کود کر خود کشی کرلی۔ پسماندگا ن میں بیوی کے علاوہ دوبچے ہیں، جن میں دو سال کا بیٹا اور دو ماہ کی بچی شامل ہے۔ ترون ایک ہندی روزنامہ سے وابستہ تھے اور صحت سے متعلق خبروں کی رپورٹنگ کرتے تھے۔ کورونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے انہیں چند دنوں قبل ایمس میں داخل کرایا گیا تھا۔ تاہم یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اخبار نے انہیں ملازمت سے فارغ کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ سخت ذہنی پریشانی سے دوچار تھے۔

ترون کے بھائی گورونے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے اتوار کے روز ترون سے بات کی تھی اور اس نے بتایا کہ ڈاکٹر اس پرکوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں، حتی کہ روزانہ دوائیاں بھی نہیں دے رہے ہیں بلکہ ہراساں کررہے ہیں۔ وہ سخت پریشان تھا اور اپنے خاندان کے بارے میں خاصا فکر مند نظر آرہا تھا۔“

ایمس انتظامیہ نے ا ن الزامات کی تردید کی ہے۔ دوسری طرف مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا”میں نے واقعہ کے سلسلے میں ایمس کے ڈائریکٹر کو فوراً انکوائری شروع کرنے کا حکم دیا ہے، جس کے بعد ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کردی گئی ہے جو 48 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ سونپ دے گی۔“

خیال رہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے بھارت کے بڑے بڑے اخبارات ا ور نیوز چینلوں کی مالی حالت خراب ہوگئی ہے۔ بیشتر اخبارات نے اپنے متعدد ایڈیشن بند اور صفحات بہت کم کردیے ہیں۔ کئی بڑے اخبارات نے اپنے پرنٹنگ پریس بند کردیے ہیں اور وہاں کام کرنے والے ملازمین کو نکال دیا ہے۔ جن ملازمین کو رکھا گیا ہے ان سے دوگنا تین گنا کام کرایا جارہا ہے۔ بیشتر میڈیا اداروں نے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کردی ہے اس کے باوجود صحافی خاموشی کے ساتھ کام کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ نیوز چینلو ں کا بھی یہی حال ہے۔

صحافیوں کی تنظیم دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) کے صدر ایس کے پانڈے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ”گوکہ میڈیا گھرانوں کے مالکان نے لاک ڈاون سے پہلے سے ہی میڈیا سے وابستہ افراد کا استحصال شروع کردیا تھا تاہم پچھلے چند ماہ کے دوران ایک ہزار سے زائد صحافیوں اور صحافتی کارکنوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ملازمت سے اچانک برطرف کردیے جانے کے باوجو د انہیں قانونی طورپر حاصل معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔“ ایس کے پانڈے نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگلے چھ ماہ کے اندر تقریباً تیس ہزار میڈیا کارکنوں کو اپنی نوکری گنوانی پڑسکتی ہے۔

Indien Neu Delhi Mahnwache für getöteten Journalisten Gauri Lankesh
تصویر: Reuters/A. Abidi

ڈی یو جے کے صدر نے کہا کہ بعض میڈیا ہاوسز نے صحافیوں کو جبراً چھٹی پر بھیج دیا ہے تو بعض نے تنخواہوں میں پچاس فیصد تک کمی کردی ہے۔ اور ان سب کے باوجود مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا”بھارت میں صحافی ان دنوں دوہری مار جھیل رہے ہیں۔ ایک طرف تو انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہے تو دوسری طرف مالکان کا رویہ انتہائی تکلیف دہ اور حکومت نے بھی ان کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔“

بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے میڈیا اور صحافیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ تیز ہوگیاہے۔ بعض تجزیہ کار اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے خلاف کوئی رپورٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بعض قومی اخبارات کو اپنے ایڈیٹروں کو صرف اس لیے نکالنا پڑ گیا کیوں کہ ان کے اداریوں سے حکومت پریشانی محسوس کررہی تھی۔

کورونا وائرس کے بعد لاک ڈاون کی وجہ سے بالخصوص عوام اور مزدوروں کو درپیش مسائل اور پریشانیوں کی خبریں دینے والے صحافیوں کو حکومت کے عتاب کا شکارہونا پڑ رہا ہے۔ حقوق انسانی کے لیے سرگرم رائٹس اینڈ رسک انالسس گروپ (آر آر اے جی) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایاہے کہ 25 مارچ کو لاک ڈاون کا اعلان ہونے کے بعد سے 31 مئی تک ملک بھر میں 55 صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ گیارہ صحافی اترپردیش کے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر جموں و کشمیر کے صحافی ہیں۔ ان صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے اثاثوں کو تبا ہ کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

دریں اثنا سرینگر میں صحافیو ں نے حکومت کی مبینہ میڈیا مخالف نئی میڈیا پالیسی 2020 کے خلاف مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس ’غیر جمہوری پالیسی‘ کو فورا ً واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر اس پالیسی کو نافذ کردیا گیا تو یہ جموں و کشمیر میں صحافت خاموشی کی موت مر جائے گی۔ کیوں کہ ”نئی میڈیا پالیسی کے تحت کوئی بھی رپورٹ شائع کرنے سے پہلے اس کے لیے حکومت کی اجازت لینا ضروری ہوگا۔“

بین الاقوامی ادارے بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کی صور ت حال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کی 2020 کی ورلڈ پریس انڈکس میں صحافتی آزادی کے لحاظ سے بھارت 142ویں پوزیشن پر ہے جبکہ اس کے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا پریس کی آزادی کے لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔

میڈیا پر بڑھتا کنٹرول

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں