1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد کو بچانے کی کوشش کرنے والے ملائم سنگھ یادو نہ رہے

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
10 اکتوبر 2022

بھارتی ریاست اتر پردیش کے تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والے سماج وادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو کا انتقال ہو گیا۔ انہیں ملک میں حزب اختلاف کی سیاست اور اس کی سیکولر شبیہ کی ایک اہم علامت سمجھا جاتا تھا۔

https://p.dw.com/p/4HyaG
Mulayam Singh Yadav
تصویر: imago images/Dinodia Photo

بھارت کے سابق وزیر دفاع اور آبادی کے لحاظ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو کی گزشتہ کئی روز صحت اچھی نہیں تھی اسی لیے ہسپتال میں ان کا علاج چل رہا تھا۔ 10 اکتوبر پیر کی صبح ان کا ہسپتال میں ہی انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 82 برس تھی۔ 

گزشتہ کچھ ہفتوں سے وہ دہلی کے مضافات میں واقع ایک ہسپتال میں داخل تھے اور کئی روز سے ان کی حالت "کافی نازک" تھی۔ پارٹی کے سربراہ اور ملائم سنگھ یادو کے بیٹے اکھلیش یادو نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ان کی موت کی خبر کی تصدیق کی۔

انہوں نے پارٹی کے آفیشل ہینڈل سے ٹویٹ کیا، ’’میرے والد محترم اور سبھی کے نیتا جی نہیں رہے۔"

سماجودای پارٹی کے بانی رہنما کے انتقال کی خبر آنے کے بعد سے ہی انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے تجربہ کار لیڈر کے ساتھ اپنے تعلقات کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’شری ملائم سنگھ یادو جی ایک قابل ذکر شخصیت تھے۔‘‘

یو پی: ادتیاناتھ حکومت، ہندتوا اور سیکولر بھارت کے خلاف جنگ

مودی نے کہا، ’’ایک شائستہ رہنما کے طور پر انہیں کافی سراہا جاتا تھا۔ انہوں نے تندہی سے لوگوں کی خدمت کی اور جے پرکاش نارائن اور ڈاکٹر لوہیا کے نظریات کو مقبول بنانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔"

کانگریس پارٹی، حکومت کے کئی وزار، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کئی وزراء اعلی سمیت ملک کی متعدد شخصیات نے ان کی موت پر رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، ملائم سنگھ یادو کے ساتھ اپنے تعلقات اور ان کی شخصیت کو اجاگر کیا ہے۔

ان کی آخری رسومات منگل کے روز ان کے آبائی گاؤں ضلع اٹاوہ کے سیفائی میں ادا کی جائیں گی۔ پارٹی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’نیتا جی کی جسد خاکی کو سیفائی منتقل کیا جا رہا ہے۔ 11 اکتوبر کو تقریباً 3 بجے ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔" 

Indien Mulayam Singh Yadav in Neu-Delhi
ملائم سنگھ یادو نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’مسجد پر حملہ میری لاش کے اوپر سے ہی ممکن ہے۔‘‘تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

سیاسی سفر

خرابی صحت کی وجہ سے گزشتہ کچھ برسوں سے ملائم سنگھ یادو قومی سیاست کے اسٹیج پر کم ہی نظر آئے، تاہم نشیب و فراز پر مبنی ان کا سیاسی سفر کافی دلچسپ اور ہنگامہ خیز رہا۔ سماج وادی پارٹی کے حامیوں اور جماعت کے رہنماؤں میں وہ "نیتا جی" کے نام سے معروف تھے۔

'ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں'، بھارتی دانشور

ملائم سنگھ یادو 22 نومبر 1939ء کو یو پی کے اٹاوا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے تین بار وزیر اعلی رہے۔ ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے بھی وہ کئی بار رکن منتخب ہوئے اور پارلیمان میں وہ ریاست کے ضلع اعظم گڑھ کے حلقے کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔

سابق پہلوان سن 1980 کی دہائی کے اواخر اور سن 1990 کی دہائی کے اوائل میں یو پی کی سیاست میں سرخیوں میں اس وقت آئے، جب بھارت میں سماجی یا تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کی شناخت کے لیے قائم کیے گئے منڈل کمیشن کے خلاف احتجاج اور مظاہرے اپنے عروج پر تھے۔

بھارت: متعدد افراد کو زندہ جلا دیا، سیاسی دشمنی کا شاخسانہ

وہ ابتدا سے ہی شو لسٹ سیاسی نظریات سے متاثر تھے اور سب سے پہلے سن 1967ء میں رام منوہر لوہیا کی سنیوکت سوشلسٹ پارٹی سے اتر پردیش کی اسمبلی میں داخل ہوئے۔ سن 1977ء میں پہلی بار ریاستی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

تاہم سیاست میں ان کا ستارہ اس وقت چمکنا شروع ہوا، جب انہوں نے جنتادل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1989ء میں سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کے ساتھ مل کر اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف سیاسی مہم کا آغاز کیا۔

اسی سیاسی تحریک کی بنیا پر وہ سن 1989 اور 91 کے دوران پہلی بار ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلی بنے۔ پھر وی پی سنگھ سے سیاسی اختلاف کی بنا پر انہوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت 'سماجوادی پارٹی' کی بنا ڈالی۔

Indien Mulayam Singh Yadav
نشیب و فراز پر مبنی ان کا سیاسی سفر کافی دلچسپ اور ہنگامہ خیز رہا۔ سماج وادی پارٹی کے حامیوں اور جماعت کے رہنماؤں میں وہ "نیتا جی" کے نام سے معروف تھےتصویر: Getty Images/AFP/Raveendram

بابری مسجد کے خلاف تحریک کا عروج

یہ وہ دور تھا جب بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے خلاف اپنی مہم زوروں پر تھی۔ ان کی حکومت کے دور میں بھی سخت گیر ہندو کارسیوکوں نے مسجد کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم انہوں نے سختی برتی اور اس کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

اس دوران بعض افراد ہلاک ہوئے اور اس کارروائی کے لیے ان پر شدید نکتہ چینی بھی ہوئی، تاہم مسجد محفوظ رہی۔ اس وقت انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’مسجد پر حملہ میری لاش کے اوپر سے ہی ممکن ہے۔‘‘

ایودھیا کے قریب ہی ایک اور قدیم مسجد مسمار کر دی گئی

اس واقعے کے تقریبا ایک برس بعد ہی سن 1992 میں جب ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلی تھے، بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔

اگلے ہی برس، سن 1993 میں وہ ریاست کے دوبارہ وزیر اعلی منتخب ہوئے اور پانچ برس تک حکومت کی۔ پھر 2003 ء میں ایک بار پھر وہ کامیاب ہوئے اور تیسری بار ریاست کے وزیر اعلی بنے۔ اس کے بعد وہ کئی بار پارلیمان کے لیے منتخب ہوتے رہے۔

ایودھیا مسجد کی راہ میں نئی رکاوٹ، پاکستان کنکشن

سن 1999 میں جب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد 'یونائٹیڈ فرنٹ' کی حکومت بنی تو اس میں انہیں وزارت دفاع کا عہدہ سونپا گیا۔ ایک طویل سیاسی سفر کے بعد جب سن 2012 میں سماج وادی پارٹی یوپی میں دوبارہ اقتدار میں واپس آئی تو خرابی صحت کی وجہ سے ملائم سنگھ یادو نے اپنے بڑے بیٹے اکھلیش یادو کے لیے راستہ صاف کر دیا۔

بعد میں خاندان کے اندر سیاسی دراڑیں وسیع ہوتی گئیں اور یہاں تک کہ ملائم سنگھ اس کی وجہ سے بیٹے سے اس قدر برہم ہوئے کہ انہوں نے 2016ء میں اکھلیش کو بھی پارٹی سے نکال دیا۔ یہ سب کے لیے حیران کن بات تھی۔

تاہم سن 2017 کے اہم اسمبلی انتخابات سے عین قبل، باپ بیٹے کی جوڑی پھر متحدہ ہو گئی اور اس طرح اکھلیش یا دو سماج وادی پارٹی کے پاور سینٹر کے طور پر ابھرے۔

 

بھارت: مسجد-مندر تنازعہ: کیا ایودھیا صرف ہندوؤں کا ہے؟