بھارت۔ امریکہ غیر فوجی ایٹمی معاہدہ: کب کب کیا کیا ہوا؟
25 جولائی 2008جولائی، دو ہزار پانچ: بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور امریکی صدر جارج بُش اصولی طور پر باہمی سویلین جوہری معاہدے کے سلسلے میں تعاون پر راضی ہوجاتے ہیں۔ مزکورہ ڈیل پر راضی ہوجانے سے امریکہ بھارت کے تئیں اپنی تیس سالہ پرانی پالیسی تبدیل کرتا ہے۔ چونکہ بھارت ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس نے نان پرالیفیریشن ٹریٹی‘ NPT‘ پر کبھی دستخط نہیں کئے، اس وجہ سے امریکہ، بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے جوہری معاہدے کے حق میں نہیں تھا۔
مارچ، دو ہزار چھہ: امریکی صدر جارج بش بھارت کے تین روزہ دورے پر جاتے ہیں اور وہاں دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان جوہری معاہدے پر بظاہر مثبت بات چیت ہوتی ہے۔
دسمبر، دو ہزار چھہ: امریکی کانگریس نیوکلیئر ڈیل کی منظوری دیتی ہے۔ لیکن ایٹمی ڈیل کی حتمی کامیابی کے لئے ابھی بین الاقوامی ادارے برائے ایٹمی توانائی، IAEA‘ اور پینتالیس ممالک کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ، NSG‘ کی جانب سے منظوری ملنا باقی۔
جولائی، دو ہزار سات: تین ماہ کی زبردست گفت و شنید کے بعد دونوں ممالک ایٹمی ڈیل کے معاہدے پر اتفاق کرتے ہیں۔
اکتوبر، دو ہزار سات: بھارت میں حکمران کانگریس کی سربراہی والے متحدہ ترقی پسند اتحاد اور بائیں بازو کے جماعتوں کے درمیان بھارت۔ امریکہ جوہری ڈیل پر اختلافات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ کانگریس صدر، سونیا گاندھی ڈیل کی مخالفت کرنے والوں کو ملکی ترقی کے دشمن بتاتی ہیں۔
فروری، دو ہزار آٹھ: امریکی حکومت بھارت پر زور دیتی ہے کہ جوہری معاہدے پر جارج بش کے دور اقتدار میں ہی دستخط ہوجانے چاہیئں۔
نوجولائی، دو ہزار آٹھ: بھارت میں بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد کانگریس کی سربراہی والی مخلوط حکومت سے اپنی حمایت واپس لیتا ہے۔
بائیس جولائی، دو ہزار آٹھ: متحدہ ترقی پسند اتحاد کی حکومت بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، یعنی لوک سبھا میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔