بھارت: اجتماعی زیادتی کا ایک اور واقعہ
23 جنوری 2014مغربی بنگال کے حکام نے بتایا ہے یہ واقعہ ریاست کے دارالحکومت کولکتہ سے 240 کلومیٹر مغرب میں واقع ایک گاؤں سوبلپور میں پیش آیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس غیر شادی شدہ لڑکی کا تعلق سنتھال قبائل سے ہے اور اس پر الزام ہے کہ اُس کے پڑوسی گاؤں کے ایک مسلم لڑکے کے ساتھ تعلقات تھے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان دونوں کے تعلقات کی خبر ملنے کے ساتھ ہی پنچایت نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا۔ اس دوران گاؤں کے مرکز میں لڑکی اور لڑکے کو دو الگ الگ درختوں سے باندھ دیا گیا اور دونوں پر پچیس یچپس ہزار روپے کا جرمانہ کیا گیا۔ جیسے ہی لڑکی کے والدین نے کہا کہ یہ رقم ان کے لیے بہت زیادہ ہے اور وہ یہ جرمانہ ادا نہیں کر پائیں گے تو لڑکی کی سزا تبدیل کر دی گئی۔ پنچایت نے فیصلہ دیا کہ سزا کے طور پر اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے۔
ضلعی پولیس کے سربراہ سی سدھارکر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ ان کے بقول لڑکے کو پچیس ہزار روپے ادا کرنے کے بعد آزاد کر دیا گیا۔ سدھاکر نے مزید بتایا کہ آبروریزی کرنے والے تمام 13 افراد کو، جن میں پنچایت کا سربراہ بھی شامل ہے، گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘۔
قبائلی عمائدین یا برادری کے بڑے بوڑھوں پر مشتمل پنچایت کا دیہی زندگی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ خاص طور پر شمالی بھارت میں اخلاقی اور دیگر جرائم کے فیصلے انہی کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔
زیادتی کا شکار بننے والے لڑکی کا ایک مقامی ہسپتال میں علاج جاری ہے اور اسی کی گواہی پر 13 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار شدگان کو آج جمعرات 23 جنوری کو ڈسٹرک سیشن کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سخت قوانین کے باوجود بھارتی معاشرے میں خواتین کے ساتھ سلوک انتہائی تشویشناک ہے اور جنسی جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس 26 اکتوبر کو ایک 16سالہ لڑکی کو چھ مردوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے ایک روز بعد یہ لڑکی ایک مرتبہ انہی مردوں کی جنسی ہوس کا شکار ہوئی۔ تاہم بعد میں یہ لڑکی خود سوزی کی کوشش کے دوران شدید زخمی ہو گئی اور 31 دسمبر کی شام زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئی تھی۔ اس ماہ کے آغاز میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں راستہ بھٹک جانے والی ڈنمارک کی ایک خاتون کا پہلے سامان لوٹا گیا اور بعد میں اس کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ اس واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں چھ افراد زیر حراست ہیں۔