بچی کی جان سے زیادہ قیمتی طوطے
3 جون 2020تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بچی پر تشدد کر کے اسے ہلاک کرنے والے جوڑے کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ زہرہ شاہ نامی یہ بچی بطور ملازمہ ایک گھر میں نوکری کر رہی تھی۔ اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ''جسٹس فار زہرہ شاہ‘‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
پاکستانی صحافی زرار کھوڑو کا کہنا تھا،''ایک بچی کو اس لیے مارنا کیوں کہ اس نے آپ کے مہنگے طوطوں کو اڑا دیا، ہم لوگوں میں شیطان چھپے ہوئے ہیں۔‘‘
بچوں کے حقوق کی علمبردار سماجی کارکن ثمر من اللہ کا کہنا تھا،''وہ لوگ جو اپنے آپ کو 'نرم دل‘ کہتے ہوئے بچوں سے ملازمت کرواتے ہیں، وہ ان بچوں کے والدین کو بھی نوکری دیں۔ بچوں کو دراصل اس لیے نوکری پر رکھا جاتا ہے کیوں کہ ان کی کوئی آواز نہیں ہے اور ان کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘
ایک ٹوئٹر صارف سحر کا کہنا تھا،''پاکستان جہاں فیملی پلاننگ کو معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں امیر طبقہ بچوں کو'سستہ مزدور‘ سمجھ کر ان سے کام کرواتا ہے۔‘‘
لمز یونیورسٹی میں پروفیسر ندا کرمانی کا کہنا تھا،''بچوں سے کام کروانا بند کریں۔ یہ ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ ان کے والدین کو نوکری دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیں۔ دوسرے کے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسے آپ اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں۔‘‘
سماجی کارکن مینا کا کہنا تھا،''یہ کیسے ہوتا ہے کہ آپ سات سالہ بچی سے کام کرواتے ہیں، یہ کیسے ہوتا ہے کہ وہ طوطے اڑاتی ہے اور آپ اسے قتل ہی کردیتے ہیں۔‘‘
پاکستانی اخبار ڈان کے مطابق اس بچی پر تشدد کرنے والا جوڑا بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کا رہائشی ہے۔ زہرہ شاہ کا تعلق مظفرگڑھ سے تھا اور وہ چار ماہ قبل اس گھر میں ایک چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کے لیے بلائی گئی تھی۔ جب مار پیٹ سے بچی کی حالت بہت خراب ہوئی تو یہ شخص اسے ہسپتال چھوڑ کر چلا گیا۔ بعد میں ہسپتال انتظامیہ نے پولیس سے رابطہ کیا۔
ب ج، ع ا