1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیا: مہاجرین کی حالت ابتر، کروشیا داخلے کی کوششیں ناکام

انفومائگرینٹس
2 اگست 2018

بوسنیا میں تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے پر کروشیا کی سرحدی پولیس انہیں زدو کوب کرتی ہے۔ بوسنیا کے سرحدی قصبوں میں عارضی کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین رہائش کی ناقص صورت حال سے بھی شاکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/32VAN
Bosnien Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic

مہاجرین کے حوالے سے باخبر رکھنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق رواں برس اب تک بوسنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کی آمد سرحدی قصبے ویلیکا کلادوسا میں ہوئی ہے۔ یہاں تارکین وطن اس امید پر آتے ہیں کہ وہ کروشیا سے، جو کہ یورپی یونین کا رکن ملک ہے، سرحد پار کر کے یورپ میں داخل ہو جائیں گے۔ لیکن کروشیا کا بارڈر پار کرنا ان افراد کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں کیوں کہ وہاں پولیس ہر وقت سرحد پر چوکس رہتی ہے۔ مہاجر کیمپ یہاں چاروں اطراف میں پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ پاکستان، افغانستان،ایران، شام، عراق اور مراکش جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے پانچ سو سے زائد تارکین وطن یہاں مشکل حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ایک افغان مہاجر خاتون نے جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی، انفو مائگرینٹس کو بتایا،’’ ذرا دیکھیں ہم یہاں کن حالات  میں رہ رہے ہیں۔ ہر طرف کوڑا کرکٹ ہے اور بیت الخلا ء بری حالت میں ہیں۔ تین سال سے میرے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ہمارے لیے زندگی یہاں بہت دشوار ہو گئی ہے۔ کیا ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں؟‘‘

ان کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین کی اکثریت غیر قانونی طور پر کروشیا پہنچنے کی کوشش کر چکی ہے تاہم کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کئی مہاجرین نے ایسے الزامات بھی عائد کیے ہیں کہ کروشیا کی سرحد پر وہاں تعینات سرحدی پولیس نے نہ صرف انہیں مارا پیٹا بلکہ ان سے موبائل فون اور نقد رقم بھی چھین لی اور پھر جبراﹰ واپس بوسنیا بھیج دیا۔

Bosnien Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic

 ویلیکا کلادوسا کے کیمپوں میں مقیم بعض مہاجرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کروشیا میں پناہ کی درخواستوں کے فارم بھرے تھے لیکن وہاں کی حکومت نے انہیں بطور مہاجر درج کرنے سے بظاہر انکار کرتے ہوئے واپس بوسنیا بھیج دیا۔

ایک افغان پناہ گزین عبدالعزیز نے ان رپورٹوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا،’’ جب ہم کروشیا میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ہمیں پناہ دینے سے انکار کرتے ہیں، ہمیں مارتے ہیں اور فون بھی چھین لیتے ہیں۔ میں نے پانچ سال پہلے افغانستان چھوڑا تھا اور اب تین ماہ سے یہاں ہوں، یہاں صورت حال بہت خراب ہے۔ نہ کھانا ہے اور نہ پانی۔‘‘

تاہم کروشین پولیس نے تارکین وطن کی جانب سے عائد کیے گئے ان الزامات پر کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔

معاشی لحاظ سے کمزور مشرقی یورپی ملک بوسنیا میں مہاجرین کی آمد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایسے نوجوان افراد کی ہے جو بوسنیا کے پڑوسی ملک کروشیا کے راستے یورپی یونین کی حدود میں داخل ہو نا چاہتے ہیں۔

تاہم شکستہ بنیادی ڈھانچے،کمزور اداروں اور تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر فنڈز کے ساتھ بوسنیا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔

ص ح / ع ا / انفو مائیگرینٹس