1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
لائیو
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیشی پارلیمان تحلیل کر دی گئی

وقت اشاعت 5 اگست 2024آخری اپ ڈیٹ 6 اگست 2024

بنگلہ دیش میں طلبہ رہنماؤں نے کہا کہ وہ فوج کی قیادت والی کوئی حکومت قبول نہیں کریں گے۔ ادھر سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ ملک سے فرار ہونے کے بعد کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ کے انتظار میں فی الحال بھارت میں قیام پذیر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4j7iz
Bangladesch Dhaka | Vandalismus an Statue von Scheich Mujibur Rahman |  "Vater der Nation"
تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

  • حملوں کی وجہ سے پولیس نے کام کرنے اسے انکار کر دیا

  • بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات پر فکر مند ہیں، یورپی یونین کے سفارت کار

  • شیخ حسینہ کے متعلق ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، بھارت

  • بنگلہ دیشی پارلیمان تحلیل کر دی گئی

  • فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما

  • محمد یونس کو عبوری سربراہ بنانے کا مطالبہ

  • شیخ حسینہ سیاسی پناہ کی منتظر

حملوں کی وجہ سے پولیس نے کام کرنے اسے انکار کر دیا سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

حملوں کی وجہ سے پولیس نے کام کرنے اسے انکار کر دیا

Bangladesch | Ausschreitungen bei den Studentenprotesten in Dhaka
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images

بنگلہ دیش پولیس ایسوسی ایشن نے منگل کو کہا ہے کہ وہ ملک بھر میں ہڑتال کر رہی ہے کیونکہ پیر کے روز متعدد پولیس اسٹیشنوں پر حملوں کے نتیجے میں متعدد پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ تاہم ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔

جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکار اس وقت تک کام پر واپس نہیں آئیں گے، جب تک ان کی سکیورٹی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ ایسوسی ایشن نے طلبہ مظاہرین کے خلاف تشدد کرنے پر معافی بھی مانگ لی ہے۔

تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ پولیس کی عدم موجودگی میں طلبہ نے ٹریفک کا نظام سنبھال لیا ہے جبکہ نیم فوجی دستے بھی ان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ایئرپورٹ کی سکیورٹی نیم فوجی دستوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔
بنگلہ دیشی فوج میں بھی اعلیٰ عہدوں پر بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔
ا ا / ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)

https://p.dw.com/p/4jBCV
بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات پر فکر مند ہیں، یورپی یونین کے سفارت کار سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات پر فکر مند ہیں، یورپی یونین کے سفارت کار

Indien | Grenze Benapole-Petrapole
تصویر: Satyajit Shaw/DW

بنگلہ دیش میں یورپی یونین کے سفارت کاروں نے منگل کو کہا ہے کہ وہ اقلیتی گروہوں پر حملوں کی رپورٹوں پر ’’بہت فکر مند‘‘ ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ پیر کے روز ہندوؤں کے ملکیتی کچھ کاروباروں اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
مشہور ہندو موسیقار راہول آنند کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ 
بنگلہ دیش میں یورپی یونین کے سفیر چارلس وائٹلی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے، ’’یورپی یونین مشن کے سربراہان بنگلہ دیش میں عبادت گاہوں، مذہبی، نسلی اور دیگر اقلیتوں کے ارکان کے خلاف متعدد حملوں کی اطلاعات پر بہت فکر مند ہیں۔‘‘
پولیس نے اطلاع دی کہ مشتعل ہجوم نے شیخ حسینہ واجد کے کچھ ساتھیوں پر انتقامی حملے شروع کر دیے ہیں۔ عینی شاہدین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کے ملک بھر میں واقع  دفاتر کو نذر آتش کیا گیا اور لوٹ مار کی گئی۔
 

https://p.dw.com/p/4jAT5
شیخ حسینہ کے متعلق ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، بھارت سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

شیخ حسینہ کے متعلق ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، بھارت

Indien Staatsbesuch Premierministerin Sheikh Hasina Bangladesch | Premierminister Narendra Modi
تصویر: Naveen Sharma/ZUMA/IMAGO

بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت شیخ حسینہ حکومت کے زوال کے بعد بنگلہ دیش کی صورت حال پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے بحران میں غیر ملکی سازش کے متعلق فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت کے زوال اور ملک سے فرار ہوکر بھارت میں عبوری پناہ لینے کے تقریباً بیس گھنٹے بعد نئی دہلی نے پہلی مرتبہ باضابطہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس حوالے سے بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں حالات اب بھی مسلسل تبدیل ہورہے ہیں اور بھارت اس پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے واقعات، شیخ حسینہ کے ملک سے نکل جانے اور بھارت میں ان کے قیام نیز بعض بھارتی حکام کے ساتھ ان کی ملاقات کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ شیخ حسینہ کے متعلق فی الحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ شیخ حسینہ ابھی بھارت میں ہیں اور حکومت انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے وقت دینا چاہتی ہے۔
ایس جے شنکر نے کہا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان خبروں پر تشویش ہے اور امید کرتے ہیں کہ حالات جلد از جلد معمول پر آجائیں گے۔
 

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

https://p.dw.com/p/4jAEd
بنگلہ دیشی پارلیمان تحلیل کر دی گئی سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

بنگلہ دیشی پارلیمان تحلیل کر دی گئی

Bangladesch Dhaka | Proteste | Tausende Menschen jubelnd auf den Straßen
تصویر: DW

بنگلہ دیشی طلبہ کی طرف سے دیے گئے الٹی میٹم کے بعد ملکی پارلیمان تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ طلبہ تحریک نے ملکی صدر کو کہا تھا کہ اگر منگل کی شام تین بجے تک پارلیمان تحلیل نہ کی گئی تو سخت ردعمل دیا جائے گا۔ 

شیخ حسینہ کے طویل اقتدار کا خاتمہ کرنے والے طلبہ کا ایک اور مرکزی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بنگلہ دیشی پارلیمان تحلیل کر دی گئی ہے۔ قبل ازیں بنگلہ دیش میں طلبہ رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ فوج کی قیادت والی کوئی بھی حکومت قبول نہیں کریں گے۔
صدر محمد شہاب الدین کے پریس سیکرٹری شپلو زمان نے ایک بیان میں کہا کہ صدر نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا ہے۔
ا ا / ع ب (روئٹرز، اے ایف پی)
 

https://p.dw.com/p/4j9X3
محمد یونس کو عبوری سربراہ بنانے کا مطالبہ سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

محمد یونس کو عبوری سربراہ بنانے کا مطالبہ

Bangladesch Dhaka | Dr Muhammad Yunus vor Gericht
تصویر: Rehman Asad/AFP/Getty Images

شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے والے رہنماؤں نے فیس بک پر ایک ویڈیو جاری کرکے کہا ہے کہ وہ فوجی حکومت کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

احتجاجی تحریک کے کوارڈینیٹر ناہید اسلام نے اپنے بیان میں کہا،" کوئی بھی ایسی حکومت ہمیں قابل قبول نہیں ہوگی جس کی سفارش ہم نے نہ کی ہو۔ ہم آرمی کی حمایت والی یا آرمی کی قیادت والی کوئی بھی حکومت قبول نہیں کریں گے۔"

طلبہ رہنما نے محمد یونس کو عبوری حکومت کا رہنمامقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا،" محمد یونس سے ہم لوگوں کی بات چیت ہوئی ہے اور وہ ہماری درخواست پر یہ ذمہ داری قبول کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔"

ملک میں مائیکرو فائنانسنگ کا کامیاب تجربہ کرنے والے محمد یونس کو سن 2006 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ تاہم شیخ حسینہ کی حکومت میں ان پر بدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے۔ محمد یونس تاہم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔

ناہید اسلام نے مزید کہا کہ طلبہ حکومت کے دیگر عہدیداروں کے ناموں کا اعلان جلد ہی کریں گے اور ان کی پسند کو نظر انداز کرنا موجودہ قیادت کے لیے مشکل چیلنج ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4j9K5
بنگلہ دیش: فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

بنگلہ دیش: فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما

Bangladesch | General Waker-Uz-Zaman
تصویر: DW

شیخ حسینہ کے استعفٰی اور ملک سے فرار ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں نئی عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کا انتظار ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ آج منگل کو کسی بھی وقت نئی حکومت کے قیام کا اعلان ہو سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے کل دیر رات نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اہم میٹنگیں کیں۔ ان میں آرمی چیف، برّی اور بحری افواج کے سربراہان نیز اپوزیشن جماعت بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں کے اعلیٰ رہنما موجود تھے۔ آرمی چیف وقار الزماں آج دوپہرکو احتجاجی طلبہ رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4j9Hg
شیخ حسینہ سیاسی پناہ کی منتظر سیکشن پر جائیں
6 اگست 2024

شیخ حسینہ سیاسی پناہ کی منتظر

Großbritannien London | Regierungschefin von Bangladesch | Sheikh Hasina
تصویر: Daniel Leal-Olivas/WPA Pool/Getty Images

بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ فی الحال بھارت میں ہیں۔ انہیں دارالحکومت دہلی سے تقریباً 25 کلومیٹر دور بھارتی فضائیہ کے ہنڈن ایئر بیس پر رکھا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے انہیں عارضی قیام کی اجازت دے دی ہے۔اور بھارت کسی یورپی ملک میں انہیں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں تمام ممکنہ لاجسٹیکل سپورٹ فراہم کرے گا۔

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے کل پیر کے روز ہنڈن میں شیخ حسینہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے بعد میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے اپنی بات چیت کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کیا۔ دوسری طرف بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔

اس دوران آج وزیر اعظم کی سکیورٹی سے متعلق کابینہ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔ بعد میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کل جماعتی میٹنگ طلب کی اور بنگلہ دیش کی نئی پیش رفت پر حکومت کے موقف سے آگاہ کیا۔

شیخ حسینہ کے بیٹے نے کیا کہا؟

شیخ حسینہ کے بیٹے امریکہ میں مقیم سجیب واجد جوئے نے بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی والدہ وطن چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لیکن خاندان کے اصرار پر انہیں ایسا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا،" وہ ملک میں ہی رہنا چاہتی تھیں، وہ کسی بھی صورت میں ملک چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ لیکن ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ ان کا وہاں رہنا محفوظ نہیں ہے۔ ہمیں ان کی زندگی کی فکر تھی۔ اس لیے انہیں وطن چھوڑنے پر آمادہ کرلیا۔"

شیخ حسینہ لندن میں سیاسی پناہ لینا چاہتی ہیں اور اس سلسلے میں متعلقہ حکومتوں کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا برطانیہ انہیں سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہوجا ئے گا۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

https://p.dw.com/p/4j9KQ
بنگلہ دیشی فوج کا کرفیو اٹھانے کا اعلان، اے ایف پی سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

بنگلہ دیشی فوج کا کرفیو اٹھانے کا اعلان، اے ایف پی

 شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیا
شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیاتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

بنگلہ دیش کی فوج  نے مبینہ طور پر سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیا کرفیو اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے  فوج کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے،  ’’دفاتر، کارخانے، اسکول، کالج... منگل کو مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجے سے کھلے رہیں گے۔"  اس خبر کو مقامی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا۔

 ش ر⁄ ر ب (اے ایف پی)
 

https://p.dw.com/p/4j8lE
بنگلہ دیشی صدر کا اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو رہا کرنے کا اعلان سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

بنگلہ دیشی صدر کا اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو رہا کرنے کا اعلان

 خالدہ ضیا  کو 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
 خالدہ ضیا  کو 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تصویر: A.M. Ahad/picture alliance/AP Photo

بنگلہ دیشی صدر محمد شہاب الدین نے جیل میں قید سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کی رہائی کا حکم دے دیا۔ صدر کی جانب سے یہ اعلان سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے پہلے مستعفی اور پھر ملک سے فرار ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔
صدارتی پریس ٹیم کی جانب سے آج پیر کی شام جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا کو فوری طور پر رہا کرنے کا متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘
 78 سالہ خالدہ ضیا  کو 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کی جماعت بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ شدید علیل ہیں اور انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے دیا جائے تاہم عوامی لیگ کی حکومت میں یہ ممکن نہیں ہو پایا تھا۔
 صدراتی بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں ان تمام لوگوں کو رہا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جنہیں طلبہ کے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل وقار الزمان بھی موجود تھے جنہوں نے پیر کو اعلان کیا کہ فوج نگراں حکومت قائم کرے گی۔ ان کے ہمراہ بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہنما بھی موجود تھے۔

ش ر⁄ رب 
 

https://p.dw.com/p/4j8lS
شیخ حسینہ بھارت پہنچ گئیں، میڈیا رپورٹس سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

شیخ حسینہ بھارت پہنچ گئیں، میڈیا رپورٹس

اطلاعات کے مطابق شیخ حسینہ کے ہمراہ ان کی بہن بھی بھارت پہنچی ہیں
اطلاعات کے مطابق شیخ حسینہ کے ہمراہ ان کی بہن بھی بھارت پہنچی ہیںتصویر: Peerapon Boonyakiat/SOPA Images/IMAGO


میڈیا رپورٹوں کے مظابق بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد فرار ہو کر بھارتی ریاست اتر پردیش پہنچ گئ ہیں۔  برطانوی خبر رساں ادارےروئٹرز نے  بھارتی ٹی وی چینل نئی دہلی ٹی وی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیر کی شام حسینہ بنگلہ دیشی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر میں اتر پردیش کے ضلع غازی آباد میں واقع ہندن ایئر فورس بیس پر اتریں۔
اطلاعات کے مطابق شیخ حسینہ کی ہمشیرہ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔  شیخ حسینہ کئی سالوں تک بھارت میں رہ چکی ہیں۔ اس سے قبل ان کا خاندان سن 1975ء میں اس وقت ہمسایہ ملک بھارت منتقل ہو گیا تھا، جب حسینہ کے والد اور آزاد بنگلہ دیش کے پہلے سربراہ شیخ مجیب الرحمان ایک فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیے گئے تھے۔
چار مرتبہ بنگلہ دیش کی وزارت عظمی پر رہنے والی 73 سالہ شیخ حسینہ نے ملک میں جاری  پرتشدد مظاہروں کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں میں ڈیڑھ سو سے زائد جبکہ بعد میں ان ہلاک ہونے والوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے کیے جانے مظاہروں میں کم از کم ایک سو افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ توقع کی جارہی کہ شیخ حسینہ بھارت سے لندن کے لیے روانہ ہو جائیں گی۔
ش ر⁄ م ا (روئٹرز)

https://p.dw.com/p/4j8M4
بنگلہ دیش میں بدامنی جاری، مزید بیس افراد ہلاک ہو گئے، پولیس سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

بنگلہ دیش میں بدامنی جاری، مزید بیس افراد ہلاک ہو گئے، پولیس

ڈھاکہ پولیس کے ایک افسر نے اے خبر رساں ادارے ایف پی کو بتایاکہ یہ ہلاکتیں مظاہرین کی جانب سے عمارتوں پر دھاوا بولنے کے دوران ہوئیں
ڈھاکہ پولیس کے ایک افسر نے اے خبر رساں ادارے ایف پی کو بتایاکہ یہ ہلاکتیں مظاہرین کی جانب سے عمارتوں پر دھاوا بولنے کے دوران ہوئیںتصویر: Abu Sufian Jewel/ZUMA/dpa/picture alliance


بنگلہ دیشں میں پیر کے روز وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد دارالحکومت ڈھاکہ میں  ہونے والے مظاہروں میں کم ازکم بیس افراد ہلاک ہو گئے۔ ڈھاکہ پولیس کے ایک افسر نے خبر رساں ادارے ایف پی کو بتایاکہ یہ ہلاکتیں مظاہرین کی جانب سے عمارتوں پر دھاوا بولنے کے دوران ہوئیں۔
 ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں موجود پولیس انسپکٹر بچو میاں نے  ان اموت سے متعلق  مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا، ’’ہمیں یہاں 20 لاشیں ملی ہیں۔‘‘ تاہم عینی شاہدین اور دیگر پولیس افسران نے اطلاع دی ہے کہ ہجوم نے حریف گروپوں پر انتقامی حملے شروع کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ  اتوار کے روز  بنگلہ دیش میں حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کے دوران صرف ایک دن میں تقریباً 100 افراد مارے گئے تھے۔ یہ ہلاکتیں شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی سکیورٹی فورسز اور تب حکمراں جماعت کے حامیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہوئیں۔
اس احتجاج کو  گزشتہ ماہ سرکاری ملازمتوں میں مخصوص کوٹے کے خلاف طلبہ کے ملک گیر احتجاج کی ہی ایک کڑی قرار دیا جارہا تھا، جس میں تشدد کے واقعات کے دوران کم از کم 150 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔
ش ر⁄ م ا (اے ایف پی)
 

https://p.dw.com/p/4j8Ez
عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی، بنگلہ دیشی آرمی چیف سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی، بنگلہ دیشی آرمی چیف

بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمانتصویر: DW

بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزمان نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔ آج  پیر کے روز قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ نئی حکومت کی تشکیل پر صدر سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ 
آرمی چیف کا کہنا تھا، ’’میں پوری ذمہ داری لے رہا ہوں۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ خود نگراں حکومت کی سربراہی کریں گے۔

وقار الزماں نے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے تمام افراد کے لواحقین کے لیے انصاف کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوامی مقامات سے فوج ہٹا دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ فوج پر اعتماد رکھیں، ہم تمام ہلاکتوں کی تحقیقات کریں گے اور ذمہ داروں کو سزا دیں گے۔‘‘
انہوں نے عوام کو یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’میں نے حکم دیا ہے کہ فوج اور پولیس کی جانب سے فائرنگ نہیں کی جائے گی۔‘‘

اپنے خطاب میں انہوں نے طلبہ سے پرسکون رہنے اور گھر جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’ملک کے لیے حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے، جب ملک میں بڑے پیمانے پر پر تشدد مظاہروں کے دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں پولیس سمیت درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد شیخ حسینہ مستعفی ہو گئی ہیں اور ان کے ملک سے فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔
واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حسینہ کی رخصتی سے بنگلہ دیش میں ’’ایک بڑا خلا پیدا ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اگر یہ اقتدار کی ایک پرامن منتقلی ہے، یعنی انتخابات کے انعقاد تک ملک ایک عبوری سیٹ اپ سنبھالے ، تو استحکام کے خطرات معمولی ہوں گے اور اس کے نتائج محدود ہوں گے۔‘‘ کوگل مین کے بقول ’’ اگر کوئی پرتشدد منتقلی اقتدار یا غیر یقینی کی صورتحال جنم لیتی  ہے، تو اس سے مزید اندرونی اور بیرونی عدم استحکام اور مسائل کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘

ش ر⁄ م ا (اے ایف پی)
 

https://p.dw.com/p/4j7ry
بنگلہ دیش: پُر تشدد مظاہروں سے شیخ حسینہ کے استعفے تک سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

بنگلہ دیش: پُر تشدد مظاہروں سے شیخ حسینہ کے استعفے تک

Bangladesch Menschen feiern den Rücktritt von Premierministerin Hasina in Dhaka
تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ نے پندرہ سال مستقل اقتدار میں رہنے کے بعد پیر کے روز بطور وزیر اعظم استعفیٰ دے دیا۔ لیکن وہ کیا حالات تھے جو ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط ان کی دور حکمرانی کے اختتام کا باعث بنے؟

شیخ حسینہ کے اقتدار چھوڑنے کی وجہ ملک گیر احتجاج کا ایک سلسلہ بنا، جس کی قیادت طلبہ کر رہے تھے۔ 

ابھی اتوار کے روز ہی بنگلہ دیش میں حکومت مخالف  پر تشدد مظاہروں کے دوران صرف ایک دن میں تقریباً 100 افراد مارے گئے۔ یہ ہلاکتیں شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی سکیورٹی فورسز اور تب حکمراں جماعت کے حامیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہوئیں۔
اس احتجاج کو  گزشتہ ماہ سرکاری ملازمتوں میں مخصوص کوٹے کے خلاف طلبہ کے ملک گیر احتجاج کی ہی ایک کڑی قرار دیا جارہا تھا، جس میں تشدد کے واقعات کے دوران کم از کم 150 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

حسینہ کے استعفےکا مطالبہ

’امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ‘ نامی گروپ، جو گزشتہ ماہ ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف احتجاج میں سب سے آگے تھا، تازہ ترین مظاہروں کی قیادت بھی کر رہا تھا۔ 
اکیس جولائی کو ملکی سپریم کورٹ کی جانب سے زیادہ تر کوٹے ختم کرنے کے بعد کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کے لیے ہونے والے مظاہرے رک گئے تھے۔ تاہم مظاہرین گزشتہ ہفتے حسینہ واجد سے ان مظاہروں کے دوران ریاستی تشدد کے لیے عوامی معافی، انٹرنیٹ کنکشن کی بحالی، کالج اور یونیورسٹی کیمپسز کو دوبارہ کھولنے اور گرفتار مظاہرین کی رہائی کے مطالبات کے ساتھ واپس سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
 گزشتہ ویک  اینڈ تک یہ مظاہرے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے لیے اس وقت ایک مہم کی شکل اختیار کر گئے، جب مظاہرین نے گزشتہ ماہ مارے گئے لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
اور اس احتجاجی کی سربراہی کرنے والے طلبہ کے گروپ نے اتوار کو وزیر اعظم کے استعفے کے ایک نکاتی ایجنڈے کےساتھ ملک گیر عدم تعاون یا سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی تھی۔

مظاہرین حسینہ کا استعفیٰ کیوں چاہتے تھے؟

مظاہرین جولائی میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد کے واقعات کے لیے حسینہ واجد کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ حسینہ کے ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کی حکومت پر مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے تاہم حسینہ واجد کی حکومت اس الزام سے انکار کرتی رہی ہے۔

حسینہ نے حال ہی میں کیا کہا؟

چھہتر سالہ شیخ حسینہ اور ان کی حکومت نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ طلبہ احتجاج کے دوران تشدد میں ملوث نہیں تھے۔ بلکہ انہوں نے جھڑپوں اور آتش زنی کے واقعات کے لیے جماعت اسلامی، اس کی طلبہ تنظیم اور دیگر زیلی تنظیموں کے علاوہ مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
لیکن اتوار کو دوبارہ تشدد بھڑک اٹھنے کے بعد شیخ حسینہ نے کہا، ’’جو تشدد کر رہے ہیں وہ طالب علم نہیں ہیں بلکہ دہشت گرد ہیں، جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نکلے ہیں۔‘‘ طلبہ گروپ نے بحران کے حل کے لیے حسینہ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا تھا۔


جاب کوٹہ کے احتجاج کو کس چیز نے جنم دیا؟

 حسینہ واجد کی حکومت کے 2018  میں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کے لیے کوٹہ سسٹم ختم کر دیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم  بحال  کردیا تھا، جس کے بعد جون میں یونیورسٹی کیمپسز میں مظاہرے شروع ہوئے۔
 بعد ازاں سپریم کورٹ نے ایک حکومتی اپیل کے نتیجے میں ہائی کورٹ کا حکم  کالعدم قرار دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ 93 فیصد ملازمتیں میرٹ پر امیدواروں کے لیے کھلی ہونی چاہیں۔

ڈولتی ہوئی معیشت اور بے روزگاری

ماہرین بنگلہ دیش میں بدامنی کو پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتوں میں ترقی کے کم مواقعوں سے بھی منسلک کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سرکاری شعبے کی ملازمتیں بہتر اجرتوں اور ان میں باقاعدگی سے اضافے اور مراعات کے ساتھ بہت پرکشش معلوم ہوتی ہیں۔ تاہم سرکاری ملازمتوں کے کوٹوں نے بیروزگاری کی بلند سطح سے دوچار طلبہ میں غصے کو جنم دیا، کیونکہ 170 ملین کی آبادی والے اس ملک میں تقریباً 32 ملین نوجوان بے روزگار یا تعلیم کے حصول سے محروم ہیں۔
 ملک کے وسیع تر ہوتے ہوئے گارمنٹس سیکٹر کے بل بوتے پر کسی زمانے میں دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بنگلہ دیشی معیشت اب جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ افراط زر تقریباً 10 فیصد سالانہ ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر سکڑ رہے ہیں۔

حسینہ کی جنوری کے الیکشن میں جیت

حسینہ نے جنوری کے عام انتخابات میں مرکزی اپوزیشن جماعت بی این پی کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد مسلسل چوتھی مدت کے لیے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھی تھی۔
تاہم اپوزیشن نے ان کی عوامی لیگ پر جعلی انتخابات کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔ بی این پی نے کہا تھا کہ 28 اکتوبر کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد تقریباً 25,000 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ دوسری جانب حسینہ نے بی این پی پر حکومت مخالف مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام لگایا تھا، جنہوں نے انتخابات سے قبل ڈھاکہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ان میں تقریباﹰ 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ش ر⁄ م ا (روئٹرز)


 

https://p.dw.com/p/4j7jb
’آرمی چیف قوم سے خطاب کریں گے‘ سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

’آرمی چیف قوم سے خطاب کریں گے‘

بنگلہ دیشی آرمی سربراہ وقار الزماں
تصویر: DW

بنلگہ دیشی فوج کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ملکی فوج کے سربراہ وقار الزماں آج پیر کی سہ پہر کو قوم سے خطاب کریں گے۔ ترجمان کی طرف سے تاہم مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں احتجاجی مظاہرین کے داخل ہونے سے قبل وزیر اعظم حسینہ واجد کے بیٹے نے ملکی سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اقتدار پر بزور طاقت قبضے کی کسی بھی کوشش کو روکیں۔
امریکہ میں موجود سجیب واجد نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں ملکی سکیورٹی فورسز سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا، ’’آپ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں اور ہمارے ملک کو محفوظ بنائے اور ملکی آئین کی حفاظت کرے۔‘‘

https://p.dw.com/p/4j7j5
بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا سیکشن پر جائیں
5 اگست 2024

بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا

Bangladesch Dhaka | Proteste
تصویر: Abu Sufian Jewel/ZUMA/dpa/picture alliance

بنگلہ دیشی فوجی حکام نے کہا ہے کہ ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ اتوار کے روز پر تشدد مظاہروں میں ایک سو افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد مستعفی ہوئیں۔ یوں 15 برس سے جاری ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ 

بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں سے احتجاج کرنے والے طلبہ ہزاروں کی تعداد میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم اپنی سرکاری رہائش گاہ سے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4j7j0