1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھارت کے دورے پر

5 ستمبر 2022

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا کہنا ہے کہ بھارت ایک ’قابل اعتماد دوست‘ ہے تاہم دونوں ممالک کے درمیان ’طویل عرصے سے‘ پانی کی تقسیم کے تنازعے کا حل کیا جانا بھی بہت ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/4GQBg
Indien | Ankunft Scheich Hasina Wajed in Neu-Delhi
تصویر: Money Sharma/AFP/Getty Images

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھارت کے تین روزہ دورے پر پانچ ستمبر پیر کے روز نئی دہلی پہنچ رہی ہے، جہاں وہ اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے بھی ملاقات کریں گی۔ ان کے دورے کے ایجنڈے میں دفاعی تعاون میں اضافہ، علاقائی رابطوں کے حوالے سے اقدامات میں توسیع اور جنوبی ایشیا میں استحکام اہم موضوعات ہیں۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے آخری بار سن 2019 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ گزشتہ برس بنگلہ دیش کی آزادی کی 50 ویں سالگرہ  تھی اور ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کا 100 واں یوم پیدائش بھی منایا گیا تھا۔

اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم  مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ سن 2015 کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اب تک 12 مرتبہ آپس میں ملاقات کر چکے ہیں۔

آمد سے قبل حسینہ کا بیان

نئی دہلی کے لیے روانہ ہونے سے ایک دن قبل ڈھاکہ میں ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں شیخ حسینہ نے پانی کے دیرینہ تنازعے کے حل پر زور دیتے ہوئے بھارت اور چین کی رقابتوں پر بھی بات کی تھی۔

بنگلہ دیش میں مندروں کی توڑ پھوڑ پر بھارت کا اظہار تشویش

ان کا کہنا تھا، ’’ہم نیچے کی طرف ہیں، پانی بھارت سے آتا ہے، اس لیے بھارت کو مزید فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس سے دونوں ممالک مستفید ہوں گے۔ بعض اوقات ہمارے لوگوں کو اس کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، خاص طور پر دریائے تیستا کی وجہ سے۔‘‘

شیخ حسینہ نے مزید کہا، ’’ہم نے پایا کہ وزیر اعظم (نریندر مودی) اس کو حل کرنے کے لیے کافی بے چین ہیں لیکن مسئلہ بھارت میں ہے۔ ہم صرف گنگا کا پانی ہی بانٹتے ہیں لیکن ہمارے درمیان 54 دیگر دریا بھی ہیں۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اسے حل کیا جانا چاہیے۔‘‘

بھارت: شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش؟

Indien | Ankunft Scheich Hasina Wajed in Neu-Delhi
تصویر: Money Sharma/AFP/Getty Images

اس موقع پر شیخ حسینہ نے دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں پر محیط تعلقات کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، ’’یہاں تک کہ سن 1975 میں جب میں نے اپنے خاندان کے تمام افراد کو کھو دیا تھا، اس وقت بھی بھارتی وزیر اعظم نے مجھے بھارت میں پناہ دی تھی۔‘‘

پانی کا دیرینہ تنازعہ

بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی پانی کے حوالے سے تقریباﹰ اسی نوعیت کا تنازعہ پایا جاتا ہے، جیسا بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک زمانے سے موجود ہے۔ بھارت نے سرحدی علاقوں میں توانائی کے لیے بڑے بڑے بند تعمیر کر لیے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نصف پانی پڑوسی ملک کو دینے کے بجائے بیشتر خود ہی استعمال کرتا ہے۔

دریائے تیستا بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ تاہم بھارت نے ریاست سکم میں کئی بڑے ڈیم تعمیر کیے ہیں جن کی وجہ سے بیشتر پانی اسی میں صرف ہو جاتا ہے۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ ریاست مغربی بنگال میں تعمیر کردہ ایک نیا اور بہت بڑا ڈیم ہے۔

ماضی میں بھارت کی مرکزی حکومتیں اس حوالے سے بنگلہ دیش کے ساتھ ایک حتمی معاہدہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں تاہم ریاست مغربی بنگال کی حکومت اس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے  بنگلہ دیش کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا تو اس کے کئی اضلاع بری طرح متاثر ہوں گے۔ اس لیے وہ اس طرح کے معاہدے کی مخالفت کرتی رہی ہے۔

چین اور بھارت میں توازن

بھارتی میڈیا میں شیخ حسینہ کے اس بیان کے بھی کافی تذکرے ہیں، جس میں انہوں نے بھارت کے ساتھ ہی چین اور ڈھاکہ کے گہرے تعلقات کے بارے میں بھی بات کی۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حسینہ نے کہا کہ ان کا بنیادی مقصد اپنے ملک کی ترقی ہے۔

 ان کا کہنا تھا، ’’ہماری خارجہ پالیسی بہت واضح ہے، سب سے دوستی اور کسی سے بھی بغض نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ میں اس مسئلے میں اپنی ناک نہیں پھنسانا چاہتی۔‘‘ شیخ حسینہ نے دونوں ممالک کے درمیان تمام طرح کے مسائل کے دو طرفہ حل پر زور دیا۔

مودی کا بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے لیے جیل جانے کا دعویٰ

ان کا کہنا تھا، ’’جب آپ ساتھ ساتھ رہتے ہیں، تو کچھ مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے، اگر آپ چاہیں تو انہیں حل کر لیں یا پھر ان کے ساتھ ہی رہیں۔ ہمارے  درمیان بھی مسائل ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔ ہماری اپنی ترقی کے لیے، جو ملک کے لیے موزوں ہو، ہم ضرورت کے تحت کسی بھی ملک کے ساتھ تعاون کریں گے۔‘‘

بنگلہ دیش کے ساتھ جہاں بھارت کے رشتے اچھے ہیں وہیں چین کے ساتھ بھی ڈھاکہ کے گہرے روابط ہیں۔ تاہم بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کے حوالے سے نئی دہلی میں اس بات پر تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش چین سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔  

سری لنکا، پاکستان، نیپال اور  بھوٹان جیسے بھارت کے بیشتر پڑوسی ملکوں کے بھی چین کے ساتھ گہرے روابط ہیں اور اس حوالے سے نئی دہلی میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

شیخ حسینہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی معیشت مضبوط ہے اور وہ وقت پر اپنے ذمے واجب قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ انہوں نے معاشی بحران کے حوالے سے اس امکان کو مسترد کر دیا کہ سری لنکا کی طرح بنگلہ دیش میں بھی کوئی افراتفری شروع ہو سکتی ہے۔

سقوط ڈھاکا: سوچا تھا کہ بچے کو مار کر خودکشی کر لوں، ایک ماں