1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: اقوام متحدہ کی ت‍حقیقات اور متاثرین کی امیدیں؟

10 اکتوبر 2024

اقوام متحدہ کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم شیخ حسینہ کی معزولی کا سبب بننے والی طلبہ کی پرتشدد عوامی تحریک کے دوران انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس کے نتائج با معنی تبدیلی کا باعث بن سکیں گے؟

https://p.dw.com/p/4lbzU
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پرتشدد واقعات میں 600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پرتشدد واقعات میں 600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔ تصویر: Rajib Dhar/AP/picture alliance

اقوام متحدہکے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم جولائی اور اگست کے دوران بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں کے دوران حقائق کا پتہ لگانے، ذمہ داریوں کی نشاندہی کرنے اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں سفارشات دینے کے لیے ان دنوں بنگلہ دیش میں شواہد اکٹھا کر رہی ہے۔

بنگلہ دیش: مظاہروں کے دوران تقریباً سو ہلاک، غیر معینہ مدت کا کرفیو جاری

یہ مظاہرے، ابتدائی طور پر سرکاری ملازمتوں میں ایک متنازعہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے شروع ہوئے، لیکن جلد ہی ایک وسیع تر حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئے۔

بنگلہ دیش کی تاریخ میں مظاہروں کے خلاف سب سے مہلک کریک ڈاؤن میں سینکڑوں مظاہرین ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی وفادار سکیورٹی فورسز کی طرف سے بہت سے طلباء کو گولی مار دی گئی۔

حسینہ نے استعفیٰ دے دیا اور بڑھتی ہوئی بدامنی کے درمیان 5 اگست کو بھارت فرار ہوگئیں۔ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت، جس میں سینئر عہدوں پر دو طالب علم رہنما شامل ہیں، اب بنگلہ دیش کا نظم و نسق چلا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر نے گزشتہ ماہ ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس بات کے "مضبوط اشارے" ملے ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے "صورتحال پر اپنے ردعمل میں غیر ضروری اور غیر متناسب طاقت کا استعمال کیا۔"

بنگلہ دیش کے اصل مسائل اب شروع ہوئے ہیں!

اس نے مزید کہا کہ "مبینہ خلاف ورزیوں میں ماورائے عدالت قتل، من مانی گرفتاریاں اور حراست، جبری گمشدگیاں، تشدد اور ناروا سلوک، اور اظہار رائے کی آزادی کے استعمال اور پرامن اجتماع پر سخت پابندیاں شامل ہیں۔"

سترہ سالہ طالب علم غلام نفیض دارالحکومت ڈھاکہ میں حکومت مخالف مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا
سترہ سالہ طالب علم غلام نفیض دارالحکومت ڈھاکہ میں حکومت مخالف مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھاتصویر: Privat

اقوام متحدہ کی تحقیقات ایک سنگ میل

بہت سے ماہرین اقوام متحدہ کی تحقیقات کو احتساب کی جانب ایک اہم قدم سمجھتے ہیں، تاہم کچھ کا خیال ہے کہ اس سے مبینہ جرائم کے حوالے سے حتمی نتائج برآمد نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ٹیم مجرمانہ تحقیقات نہیں کر رہی ہے۔

ڈھاکہ میں مقیم انسانی حقوق کی وکیل سارہ حسین نے تحقیقات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ او ایچ سی ایچ آر بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کے الزامات پر ایسی رپورٹ تیار کر رہا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس کا ٹائم فریم مظاہروں کے تناظر میں جبر اور ساتھ ہی سابق حکمران عوامی لیگ پارٹی کے ارکان کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں سے متعلق دونوں الزامات کا احاطہ کرے گا۔"

انہوں نے کہا "ہمارے معاشرے میں گہری تقسیم کو دیکھتے ہوئے اور بہت سے متعصب گروہوں کی طرف سے اپنے مخالفین کو متاثر کرنے والی خلاف ورزیوں کو کم کرنے کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے، یہ خاص طور پر اہم ہے کہ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی طرف سے تیار کی جا رہی ہے۔"

حسین نے مزید کہا کہ یہ رپورٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے لیے انصاف اور معاوضے کی فراہمی کے لیے مستقبل کی تحقیقات کے لیے ایک مثال قائم کرنے میں مدد کرے گی۔

واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار اسکالرز کے جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ یہ تحقیقات انتہائی اہم ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ملک جن صدمات سے دوچار ہوا، اس کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ عوام جانیں کہ احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ایک عمل جاری ہے اور خاص طور پر اس لیے کہ اکثر اوقات ریاست کے جرائم کا احتساب نہیں ہوتا۔"

"اس سلسلے میں، امید ہے کہ یہ تحقیقات ایک رکاوٹ کے طور پر کام کر سکتی ہے، جو مستقبل کی حکومتوں کو زبردست سطح کے جبر کا سہارا لینے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرے گی، کیونکہ انہیں پتہ ہوگا کہ ماضی کے برعکس انہیں احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

ملک سے فرار ہونے کے بعد سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے
ملک سے فرار ہونے کے بعد سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے تصویر: REUTERS

تحقیقات کو چیلنجز کا سامنا

اگرچہ حقائق تلاش کرنے والی ٹیم متاثرین، قانون نافذ کرنے والے افسران، ڈاکٹروں اور گواہوں سے انٹرویو کر رہی ہے، اقوام متحدہ نے واضح کیا کہ یہ "مجرمانہ تحقیقات نہیں" ہے اور کسی بھی ملکی انصاف کے عمل کی پابند ہونے کے بجائے آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔

حسین اور کوگل مین دونوں کا خیال ہے کہ ایسی تحقیقات سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی مکمل حد کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔

حسین نے مزید کہا، "یہ جامع نتائج نہیں دے سکے گا، کیونکہ یہ مجرمانہ تحقیقات پر لاگو ہونے والے ثبوت کے معیار، یعنی 'مناسب شک سے بالاتر' کا استعمال نہیں کر رہا ہے۔"

کوگل مین نے خبردار کیا کہ اگرچہ عبوری حکومت تعاون کر سکتی ہے، لیکن سابق حکومت اور اس کے حامی مکمل طور پر شفاف نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اقوام متحدہ کی قانونی اتھارٹی کی کمی اس کے اثر و رسوخ کو کمزور کرتی ہے۔

کوگل مین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "شیخ حسینہ کا پیچیدہ عنصر بھی ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ بھارت انہیں تفتیش کے لیے رسائی فراہم کرنے میں آسانی محسوس کرے گا، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا وہ تعاون کریں گی۔"

محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت اب بنگلہ دیش کا نظم و نسق چلا رہی ہے
محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت اب بنگلہ دیش کا نظم و نسق چلا رہی ہےتصویر: Sazzad Hossain/DW

متاثرین کے اہل خانہ کے شکوک و شبہات

ڈی ڈبلیو نے ہلاک ہونے والے دو طالب علموں کے لواحقین سے بات کی، جنہوں نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی ٹیم سے اس کی تحقیقات میں مدد کے لیے رابطے میں ہیں۔

ان میں سے ایک، میر محمود الرحمان دیپتو، جن کے چھوٹے بھائی، 25 سالہ طالب علم، میر محفوظ الرحمان "مگدھو"،  کو 18 جولائی کو ڈھاکہ میں مظاہرین کو پانی کی بوتلیں دیتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اپنے بھائی کی موت کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی ٹیم کو کچھ ثبوت پیش کیے تھے۔

دیپتو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں اقوام متحدہ کی ٹیم سے زیادہ پر امید نہیں ہوں کیونکہ وہ مجرمانہ تحقیقات نہیں کر رہی ہے۔ یہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ وہ انفرادی فوجداری مقدمات کی تفتیش نہیں کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں ابھی تک عوامی تحریک کے دوران کیے گئے جرائم کی مکمل  تفصیلات نہیں مل سکی ہیں۔"

ڈھاکہ میں حکومت مخالف مظاہرے کے دوران 4 اگست کو گولی لگنے سے ہلاک ہونے والے 17 سالہ طالب علم غلام نفیض کے والد غلام رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے اقوام متحدہ کی ٹیم سے رابطے میں ہیں۔

رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم چاہتے ہیں کہ مجرموں کو اقوام متحدہ کی طرف سے منصفانہ تحقیقات کے ذریعے انصاف کا سامنا کرنا پڑے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس بارے میں مکمل رپورٹ تیار کر سکیں گے۔"

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا

متاثرین کے اہل خانہ کیا چاہتے ہیں؟

رحمان اور دیپتو چاہتے ہیں کہ اصل ملزمان کے خلاف قتل کے الزامات درج کیے جائیں، کیونکہ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات اکثر حل نہیں ہوتے۔ انہوں نے مجرموں کی شناخت میں اقوام متحدہ اور مقامی حکام کے تعاون کا مطالبہ کیا۔

دیپتو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمیں توقع تھی کہ عبوری حکومت شواہد محفوظ کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا ہے لیکن امید ہے کہ اقوام متحدہ کی تحقیقات سی سی ٹی وی فوٹیج کا استعمال کرتے ہوئے اس کے بھائی کے قاتل کی شناخت میں مدد کرے گی۔"

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا،"ہم نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرنا چاہتے۔"

 ج ا ⁄  ص ز ( عرفات الإسلام، ڈھاکہ)