1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: کارکنوں کے خلاف مقدمے، 150 گارمنٹ فیکٹریاں بند

11 نومبر 2023

بنگلہ دیش میں گارمنٹ فیکٹریوں کے کارکنان گزشتہ ماہ سے سراپا احتجاج ہیں اور کم سے کم اجرت میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کےخلاف مقدمات کے بعد ہڑتال کے خدشے کے باعث مالکان نے 150 فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4YhEf
اس تصویر میں خواتین کو بنگلہ دیش کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں ملبوسات کی صنعت سے منسلک چار ملین وکروں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ان ورکروں میں اکثریت خواتین کی ہے، جن کی کم سے کم ماہانہ اجرت کچھ عرصے قبل تک صرف 8,300 ٹکے یا 75 ڈالر تھی۔تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

بنگلہ دیش میں ملبوسات کی برآمدی صنعت کی ڈیڑھ سو فیکٹریوں کے مالکان نے آج ہفتے کے دن سے اپنے پیداواری ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں اس صنعت کے کئی ملین کارکنوں کے لیے کم سے کم اجرتوں سے متعلق ایسا تنازعہ جاری ہے، جس دوران وسیع تر مظاہرے کیے گئے اور پولیس کو مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں بھی استعمال کرنا پڑیں۔

 ڈیڑھ سو کے قریب فیکٹری مالکان نے اپنےا دارے بند کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ حالیہ مظاہروں کے باعث پولیس نے گیارہ ہزار احتجاجی کارکنوں کے خلاف اب اجتماعی الزامات عائد کر دیے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹ فیکٹریوں کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے تین ہزار ہے، جن میں چار ملین کے قریب کارکن کام کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔

بنگلہ دیش، ملبوسات بنانے والی فیکٹریوں کے ملازموں کا احتجاج

بنگلہ دیشی پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ملک میں گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین کی جانب سے حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد 11,000 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں، جس کے بعد ہڑتال کے خدشے کے باعث مالکان نے 150 فیکٹریاں "غیر معینہ مدت" کے لیے بند کردی ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش میں 3,500 کے قریب گارمنٹ فیکٹیریاں ہیں، جو لیوائز، زارا اور ایچ اینڈ ایم سمیت کئی اور نامور برانڈز کو ملبوسات فراہم کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی سالانہ 55 بلین ڈالر کی برآمدات میں 85 فیصد حصہ انہی گارمنٹ فیکٹریوں کی پیداوار کا ہے۔

بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد غیر مناسب حالات میں کام کرنے پر مجبور

اس کے باوجود اس شعبے سے منسلک چار ملین وکروں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ان ورکروں میں اکثریت خواتین کی ہے، جن کی کم سے کم ماہانہ اجرت کچھ عرصے قبل تک صرف 8,300 ٹکے یا 75 ڈالر تھی۔ پولیس کے مطابق ان ملازمین نے اپنے کم سے کم اجرت میں اضافے کے مطالبے کو منوانے کے لیے اکتوبر  میں پر تشدد مظاہروں کا آغاز کیا تھا، جن کے دوران اب تک کم از کم تین ورکر ہلاک ہو چکے ہیں اور 70 سے زائد فیکٹریوں کو نقصان پہنچا ہے۔

بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹری میں آلودہ پانی پینے سے 450 کارکن بیمار

منگل کو حکومت کے تشکیل کردہ ایک پینل نے ان ملازمین کی کم سے کم اجرت 56.25 فیصد اضافے کے بعد 12,500 ٹکے مقرر کی تھی۔ لیکن فیکٹری ورکروں نے اس کو مسترد کرتے ہوئے اپنی کم س کم اجرت 23,000 ٹکے تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعرات کو 15,000 ملازمین اور پولیس کے درمیان ایک اہم شاہراہ پر تصادم کے بعد مظاہرین نے توسوکا سمیت کئی اور گارمنٹ فیکٹریوں میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔ اس حوالے سے پولیس انسپکٹر مشرف حسین نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا کہ توسوکا گارمنٹ فیکٹری پر حملے کے الزام میں 11,000 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

رانا پلازہ حادثہ : بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں اب محفوظ؟

پولیس افسران نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ اس اقدام کے بعد دارالحکومت ڈھاکہ کے شمال میں واقع اہم صنعتی علاقوں اشولیہ اور غازی پور میں ہفتے کے زور ورکروں کی جانب سے ہڑتال کے خدشے کے باعث مالکان نے 150 فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔

م ا⁄ ش ر (اے ایف پی)