1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: پرتشدد جھڑپوں کے بعد حالات معمول پر لانے کی کوشش

24 جولائی 2024

ملک بھر میں افراتفری اور طلبہ کے پرتشدد احتجاج میں تقریباً 200 ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیش میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم حالات بہتر ہونے تک ڈھاکہ اور دیگر مقامات پر کرفیو جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/4ifbv
ملک بھر میں افراتفری اور طلبہ کے پرتشدد احتجاج میں تقریباً 200 ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیش میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے
ملک بھر میں افراتفری اور طلبہ کے پرتشدد احتجاج میں تقریباً 200 ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیش میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہےتصویر: AFP

آج بروز بدھ کو بھی بنگلہ دیش کے بیشتر حصوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی لیکن حکام کی جانب سے سات گھنٹے کے لیے کرفیو میں نرمی کے بعد دارالحکومت کی سڑکوں پر ہزاروں کاریں موجود تھیں۔

بدھ کو دفاتر اور بینک چند گھنٹوں کے لیے کھلے رہے، جب کہ حکام نے ڈھاکہ اور ملک کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ کے کچھ علاقوں میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ بحال کر دیا ہے۔ حکام نے کہا کہ حالات بہتر ہونے تک ڈھاکہ اور دیگر مقامات پر کرفیو جاری رہے گا۔

بنگالی زبان کے معروف روزنامہ ''پروتھم آلو‘‘ نے بدھ کو ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق 16 جولائی سے لے کر اب تک ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 197 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم سرکاری ذرائع سے ان اعداد و شمار کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے اگلے نوٹس تک بند ہی رہیں گے۔

بدھ کو دفاتر اور بینک چند گھنٹوں کے لیے کھلے رہے
بدھ کو دفاتر اور بینک چند گھنٹوں کے لیے کھلے رہےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP

15 جولائی کو پولیس اور خاص طور پر طلبہ مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب وہ ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوٹہ سسٹم کے تحت اچھی تنخواہ والی سول سروسز، جن میں لاکھوں سرکاری ملازمتیں بھی شامل ہیں، کے عہدوں کو مخصوص گروپوں کے لیے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ ان گروپوں میں سن 1971 میں پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ میں حصہ لینے والے افراد کے بچے بھی شامل ہیں۔

شدید احتجاج اور جھڑپوں کے بعد گزشتہ اتوار کو سپریم کورٹ نے سن 1971 کے جنگی سابق فوجیوں کا کوٹہ کم کرتے ہوئے پانچ فیصد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے نئے حکم نامے کے مطابق اب سول سروس کی 93 فیصد نوکریاں میرٹ کی بنیاد پر ہوں گی جبکہ باقی دو فیصد نسلی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں اور معذور افراد کے لیے مخصوص ہوں گی۔

مظاہرین نے اتوار کے فیصلے پر ردعمل دینے کے لیے کچھ وقت لیا لیکنمنگل کو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کے بعد کا حکومتی سرکلر مظاہرین کے حق میں ہیں لیکن حکومت کو احتجاج کے دوران خونریزی اور ہلاکتوں کا جواب دینا چاہیے۔

افراتفری اور طلبہ کے پرتشدد احتجاج میں تقریبا 200 ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیش میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے
افراتفری اور طلبہ کے پرتشدد احتجاج میں تقریبا 200 ہلاکتوں کے بعد بنگلہ دیش میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہےتصویر: AFP

دوسری جانب ملکی وزیر قانون انیس الحق بارہا الزام عائد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ تشدد اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ کے مسلح مظاہرین کی وجہ سے سنگین ہوا۔ وزیر قانون کے مطابق پارٹی اور دائیں بازو کی جماعت اسلامی نے احتجاجی مظاہروں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کئی سرکاری تنصیبات پر حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کے دوران بنگلہ دیش کے سرکاری ٹیلی ویژن، ایک فلائی اوور کے دو ٹول پلازوں، ایک ایکسپریس وے، ڈھاکہ میں میٹرو ریل کے دو اسٹیشنوں اور سینکڑوں سرکاری گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

بنگلہ دیش پولیس کی جانب سے مرکزی اپوزیشن جماعت کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارتے ہوئے اسے سیل کر دیا گیا ہے۔

ا ا / ع ت (اے پی، اے ایف پی)