بنگلہ دیش نے ریپ کی سزا موت مقرر کر دی
12 اکتوبر 2020بنگلہ دیشی کابینہ نے آج منگل 12 اکتوبر کو ریپ یا جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دینے کی منظوری دے دی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو خود اپنی پارٹی کے اندر سے بھی اس حوالے سے دباؤ کا سامنا تھا۔ ڈھاکا میں ایک میٹنگ کے بعد ان کی حکومت نے سزائے موت لاگو کرنے کا اعلان کیا۔ بنگلہ دیشی وزیر انصاف انیس الحق کے مطابق یہ قانون منگل 13 اکتوبر کو صدر کی جانب سے جاری کر دیا جائے گا۔
بنگلہ دیش کے وزیر انصاف انیس الحق کے مطابق ریپ کے مجرموں کو سزائے موت دینے کے فیصلے کی منظوری وزیر اعظم شیخ حسینہ کی قیادت میں آج ڈھاکا میں ہونے والی کابینہ کی ایک ملاقات میں دیا گیا: ''اس قانون میں فوری ترمیم کی ضرورت ہے۔ (کابینہ نے) فیصلہ کیا ہے کہ اس حوالے سے ایک آرڈیننس کل منگل کے روز صدر کی توثیق کے ساتھ جاری کر دیا جائے، کیونکہ ان دنوں پارلیمان کا اجلاس نہیں ہو رہا۔‘‘
تیزی سے بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات
بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں کے دوران جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بنگلہ دیشی گروپ عین و شلیش کیندرا کے مطابق رواں برس جنوری سے لے کر ستمبر تک قریب 1,000 ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں سے قریب 20 فیصد اجتماعی زیادتی یا گینگ ریپ کے واقعات تھے۔
بنگلہ دیش میں تازہ مظاہروں کا سلسلہ ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں مردوں کے ایک گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے جو ایک خاتون کے کپڑے پھاڑتے اور قریب آدھے گھنٹے تک اس پر حملہ آور ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ملک کے شمال مشرقی علاقے نواکھلی میں پیش آیا تھا۔
بنگلہ دیش کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون کو اس گروپ نے گزشتہ پورے سال کے دوران اسلحے کے زور پر مسلسل زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ریپ کے ذمہ دار قانون کی گرفت سے آزاد
تاہم ماہرین کا مؤقف ہے کہ سخت سزائیں لاگو کرنے کی بجائے جنسی زیادتی سے متعلق مقدمات میں موجود خامیوں اور سزائیں ملنے کی انتہائی کم شرح جیسے مسائل کو فی الفور حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے 2013ء میں کرائے جانے والے ایک سروے کے مطابق بنگلہ دیش کے ایسے مرد جنہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ جنسی زیادتی کے مرتکب ہو چکے ہیں، ان میں سے دیہاتی علاقوں کے 88 فیصد اور شہری علاقوں کے 95 فیصد نے بتایا کہ انہیں کسی قسم کے کسی قانونی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ا ب ا / ع س ( روئٹرز، اے پی)