1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں کشیدگی برقرار، مزید چار افراد ہلاک

24 فروری 2013

بنگلہ دیش میں مذہبی جماعیتں مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب بلاگرز کی گرفتاری اور سزائے موت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ دوسری جانب اسی الزام کی وجہ سے قتل کیے جانے والے بلاگر کے حامی ان کے بلاگز کی تشہیر بھی کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/17kwu
تصویر: picture-alliance/dpa

پولیس کے مطابق اتوار کے روز ہونے والے مظاہروں میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ تین ہزار کے قریب مظاہرین نے مانک گنج میں ایک مرکزی شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ ان مظاہرین میں مدرسوں کے طلبہ علاوہ مرکزی اپوزیشن پارٹی کے حامی بھی شامل تھے۔ پولیس نے بتایا کہ جب یہ رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کی گئی تو ان افراد نے خنجروں، لاٹھیوں اور آتش گیر بموں کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔

علاقے کے پولیس افسر میزان الرحمان نے بتایا کہ ذاتی دفاع میں پولیس کو بھی فائرنگ کرنا پڑی، جس کی زد میں آکر چالیس سے زائد افراد زخمی بھی ہو گئے۔ رحمان نے مزید بتایا کہ اس دوران علاقے کی مسجد کے امام نے لاؤڈ اسپیکر پر مظاہرین کے حوصلے بلند کیے اور بلاگرز کوکافر قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت دیے جانے کا مطالبہ کیا۔

Islamistische Proteste in Bangladesh
بنگلہ دیش میں مذہبی جماعیتں مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب بلاگرز کی گرفتاری اور سزائے موت کا مطالبہ کر رہی ہیںتصویر: AFP/Getty Images

مقامی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر خلیل الرحمان نے بتایا کہ تین نوجوانوں کی ہلاکت گولی لگنےسے ہوئی تھی جبکہ چوتھے زخمی کا انتقال اس وقت ہوا، جب اسے ڈھاکہ منتقل کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اٹھارہ افراد گولی لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح کوکس بازار میں ہونے والے احتجاج میں بھی پندرہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور اس کی بارہ چھوٹی حلیف جماعتوں نے مرکزی اپوزیشن جماعت کے ساتھ مل کر جمعے کے روز ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی تھی۔ جمعے کے روز ہونے والی ہنگامہ آرائی میں بھی چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بنگلہ دیش میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہوئی، جب احمد رجب حیدر نامی بلاگر پر توہین رسالت کا الزام عائد کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے اسے ڈھاکہ میں اس کے گھر کے سامنے ہی قتل کر دیا گیا۔ حیدر اور اس کے بلاگر ساتھیوں نے گزشتہ ہفتوں کے دوران جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ایک مہم شروع کر رکھی تھی۔ قتل کی اس واردات کے بعد بنگلہ دیش میں سماجی ویب سائٹ پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد حیدر کی مہم کو آگے بڑھا رہی ہے۔

حکومت نے حالات خراب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈھاکہ حکومت نے اخبارات اور رسائل سے ایسا مواد شائع نہ کرنے کی اپیل کی ہے، جس سے پیغمبر اسلام کی توہین ہوتی ہو۔ ساتھ ہی جہاں اسلام مخالف بلاگز لکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے، وہاں بہت سے بلاگرز کو حکومت کی جانب سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔

ai / aa ( Reuters,dpa)